A Rebellion in Kabul-History of Afghnistan part 1

A Rebellion in Kabul-History of Afghnistan part 1
دوسری اینگلو افغان جنگ اپنے عروج پر تھی۔ سات ہزار برطانوی فوج افغانوں کے گھیرے میں آ چکی تھی۔ کابل کی مساجد میں اعلانات ہو رہے تھے کہ اٹھو ان کافروں کا خاتمہ کر دو۔ کوئی بچ کر جانے نہ پائے۔ پھر دسمبر کی یخ بستہ رات میں ایک ایسی لڑائی شروع ہوئی جو تاریخ پر ان مٹ نقوش چھوڑ گئی۔ اس لڑائی کا کیا نتیجہ نکلا؟ یہ لڑائی کیا تھی؟ اور وہ کون تھا جو نوے برس کی عمر میں بھی افغانوں کی آزادی کا پرچم تھامے انگریزوں سے بھِڑ گیا۔ برطانیہ کا افغانستان کو غلام بنانے کا خواب کیسے چِکنا چور ہوا۔ یہ چھے اکتوبر اٹھارہ سو اناسی، ایٹین سیونٹی نائن کی بات ہے۔
کابل سے گیارہ کلومیٹر دور “چھار آسیاب” کے علاقے میں ایک جنگ ہو رہی تھی۔ ہزاروں افغان قبائلی پہاڑوں سے گولیاں برسا رہے تھے۔ انگریز اور ہندوستانی سپاہی انہیں پہاڑوں سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پہاڑوں سے نیچے برطانوی کیمپ میں افغان امیر یعقوب خان اپنے جنرلز کے ساتھ یہ ساری لڑائی دیکھ رہے تھے۔ لیکن یہ افغان امیر اپنے دشمنوں کے کیمپ میں کیا کر رہے تھے؟ دوستو اس سارے واقعے کا بیک گراؤنڈ تھا وہ یہ کہ برطانوی فوج جنرل رابرٹس کی کمان میں افغانستان پر حملہ آور ہوئی تھی۔ اس کا مقصد کابل میں برطانوی مشن کے قتل میں ملوث لوگوں کو سزا دینا اور افغانستان کو برطانوی کنٹرول میں لانا تھا۔
لیکن ہوا یہ تھا کہ اس فوج کے کابل پہنچنے سے پہلے ہی یعقوب خان اپنے دو سو ساتھیوں کے ساتھ خود برطانوی کیمپ میں چلے آئے اور صلح صفائی کی کوشش کرنے لگے۔ تاہم جنرل رابرٹس نے ان کی بات نہیں مانی اور پیش قدمی جاری رکھی۔ یوں چھے اکتوبر کو یہ حیرت انگیز صورتحال پیش آئی کہ جب افغانوں اور انگریزوں کی لڑائی ہو رہی تھی تو افغان امیر برطانوی کیمپ میں بے بسی سے بیٹھے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ بہرحال دوستو چھے اکتوبر کی یہ زبردست لڑائی جس میں ہاتھی بھی توپیں کھینچنے کیلئے استعمال ہو رہے تھے وہ انگریزوں اور ہندوستانی فوجیوں نے جیت لی۔ اب چھار آسیاب جہاں یہ جنگ ہوئی تھی وہ برطانوی فوج کے کنٹرول میں تھا۔
اس فتح کے بعد انگریز فوج تیزی سے کابل کی طرف بڑھی اور باآسانی اس پر قبضہ کر لیا۔ گیارہ اکتوبر کو جنرل رابرٹس بہت سے افغان قبائلی عمائدین کے ساتھ قلعہ بالا حصار میں داخل ہوئے۔ قلعے پر برطانوی پرچم یونین جیک لہرا دیا گیا۔ اس موقع پر اکتیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ اکتیس توپوں کی سلامی ہندوستان میں انگریز وائسرائے کو دی جاتی تھی۔ کابل میں یہ سلامی دینے کا مطلب تھا کہ اب جنرل رابرٹس افغانستان کے نئے حکمران، گورنر یا وائسرائے جو بھی آپ کہہ لیں بن گئے تھے۔ انہوں نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ تمام افغان سرکاری افسروں کو برطرف کر دیا اور کابل شہر کے گرد سولہ کلومیٹر کے دائرے میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔
برطانوی فوج نے کابل اور اس کے اردگرد آبادیوں میں سرچ آپریشن کئے گئے اور شہریوں سے اسلحہ چھین لیا گیا جن آبادیوں کے بارے میں یہ شک تھا کہ انہوں نے برطانوی مشن پر حملہ کرنے والوں کو پناہ دی تھی انہیں تباہ کر دیا گیا یا بھاری جرمانے کئے گئے۔ کابل میں جنرل رابرٹس کی پہلی اسائنمنٹ تھی برطانوی مشن کے قاتلوں کو تلاش کر کے عبرت کا نشان بنانا۔ ہندوستان کے وائسرائے لارڈ لیٹن نے جنرل رابرٹس کو ہدایت کی تھی کہ افغانوں سے سخت انتقام لیا جائے۔ مشتبہ لوگوں کو سخت اور فوری سزا دی جائے۔ یہی نہیں جنرل رابرٹس کو یہ ہدایت بھی کی گئی تھی کہ وہ مجرموں کے خلاف عدالتی کارروائیوں کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھیں گے۔