A Rebellion in Kabul-History of Afghnistan part 2

A Rebellion in Kabul-History of Afghnistan part 2
یہ انتظام اس لئے تھا تاکہ بعد میں اس کی بنیاد پر کوئی برطانیہ کو تنقید کا نشانہ نہ بنا سکے۔ ان سرکاری ہدایات کی روشنی میں جنرل رابرٹس نے برطانوی مشن پر حملے کے ملزموں کی تلاش شروع کی۔ مخبری کرنے والوں کیلئے بھاری انعامات کا اعلان اور ملزموں پر مقدمات چلانے کیلئے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔ ان فوجی عدالتوں کو فری ہینڈ دیا گیا کہ وہ کسی شخص کے خلاف مخبری کو بھی ثبوت سمجھیں اس کی تصدیق کی زحمت نہ کریں۔ ملزموں کو فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق بھی نہیں دیا گیا۔
برطانوی مشن پر حملے کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے برٹش آفیسرز پر مشتمل انکوائری کمیشن قائم کر دیا گیا۔ اس کمیشن نے واقعے کی ساری ذمہ داری افغان امیر یعقوب خان کے سر ڈال دی۔ حالانکہ آپ پچھلی قسط میں دیکھ چکے ہیں کہ یعقوب خان نے تو برطانوی مشن کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کی تھی۔ تاہم برطانوی کمیشن نے پھر بھی انہیں قصوروار ٹھہرا دیا۔ جب یہ فیصلہ سنایا گیا تو یعقوب خان اس وقت بھی انگریزوں کے کیمپ میں ہی موجود تھے۔
وہ فوری طور پر امیر کے عہدے سے دستبردار ہو گئے جو ویسے بھی برائے نام ہی رہ گیا تھا۔ وہ اتنے بددل تھے کہ مبینہ طور پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں برطانوی کیمپ میں گھاس کاٹ لوں گا لیکن افغانستان کا امیر نہیں رہوں گا۔ جنرل رابرٹس نے انہیں ہندوستان روانہ کر دیا تاکہ وہ انگریزوں کے خلاف کسی بغاوت کا حصہ نہ بن سکیں۔ پھر وہ تمام عمر ہندوستان میں ہی رہے اور وہیں انیس سو تئیس، نائنٹین ٹوئنٹی تھری میں غالباً شملہ میں ان کا انتقال ہوا۔
یعقوب خان کے بعد کمیشن نے دوسرے ملزموں پر توجہ دی۔ برطانوی مشن پر حملے کے اصل مجرم تو جنرل رابرٹس کے کابل پہنچنے سے پہلے ہی فرار ہو چکے تھے۔ بمشکل چند ایک ہی لوگ ہاتھ آئے جنہیں فوجی عدالتوں نے فوری طور پر سزائے موت سنا دی۔ کابل میں برطانوی مشن کی وہ عمارت جسے افغانوں نے تباہ کیا تھا وہیں جنرل رابرٹس نے دو پھانسی گھاٹ قائم کئے۔ یہ ایک سمبالک ایکٹ تھا کہ جہاں جرم ہوا تھا سزا بھی وہیں دی جائے گی۔
ان پھانسی گھاٹوں پر تقریباً ستاسی، ایٹی سیون افغانوں کو پھانسی دی گئی۔ جنرل رابرٹس کی طرف سے دی جانے والی ان پھانسیوں پر برطانوی پریس نے شدید تنقید بھی کی۔ لندن ڈیلی نیوز کا نمائندہ جو برطانوی فوج کے ساتھ کابل آیا تھا اس نے الزام لگایا کہ کچھ لوگوں کو محض اس لئے پھانسی دی گئی کیونکہ وہ افغانستان پر برطانوی حملے کی مخالفت کر رہے تھے۔ ایک اور واقعے میں مبینہ طور پر گورکھا فوجیوں نے کئی افغانوں کو زندہ جلا دیا اور کچھ کے سر قلم کر دیئے۔
اس واقعے پر ڈیلی نیوز نے جنرل رابرٹس کو قاتل قرار دے دیا۔ بہرحال جب مقدمات اور سزاؤں کا شور کچھ تھم گیا تو جنرل رابرٹس نے اپنی فوج کیلئے ایک محفوظ ٹھکانے کی تلاش شروع کی۔ یہ ٹھکانہ ان کی نظر میں شیرپور چھاؤنی یا شیرپور کنٹونمنٹ تھی جو دریائے کابل کے پار کوہِ آسمائی کی پہاڑیوں سے چند کلومیٹر دور واقع تھی۔ یہ چھاؤنی سابق افغان امیر شیر علی کے دور میں بنائی گئی تھی۔
یہ وہی علاقہ ہے دوستو جس کے بالکل قریب شیر پور میں یکم اگست دوہزار بائیس کو امریکہ نے ڈرون حملے میں القاعدہ سربراہ ایمن الظواہری کو ہلاک کیا تھا۔ اس وقت بھی شیر علی بہت بڑی چھاؤنی، کنٹونمنٹ تھی اور انگریز فوج کی رہائش اور دفاع کیلئے بالکل مناسب تھی۔ جنرل رابرٹس کے حکم پر برطانوی انجینئرز نے اس چھاؤنی کی مرمت کر کے اسے برطانوی فوج کی رہائش کے قابل بنا دیا۔ اس کے بعد جنرل رابرٹس نے قلعہ بالاحصار کے اندرونی حصے کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ صرف بیرونی دیواریں قائم رہیں۔