A Rebellion in Kabul-History of Afghnistan part 4

A Rebellion in Kabul-History of Afghnistan part 4
جنرل رابرٹس کو ان کے جاسوسوں نے اطلاع دی کہ شہر میں ایک لاکھ کا لشکر جمع ہو چکا ہے۔ ادھر افغانوں نے بھی شیرپور چھاؤنی پر فیصلہ کن حملے کی تیاری شروع کر دی۔ کابل کی مساجد سے جہاد کے اعلانات ہونے لگے۔ علماء افغانوں سے کہہ رہے تھے کہ اٹھو اور ان کافروں کا خاتمہ کر دو۔ مُلا مشکِ عالم بھی اس وقت کابل پہنچ چکے تھے اور لوگوں کو جہاد کی تلقین کر رہے تھے۔ افغانوں نے شیرپور چھاؤنی کو گھیرے میں لینا شروع کر دیا اور اس کے اردگرد پہاڑوں پر مورچے سنبھال لئے۔
یوں سات ہزار برطانوی فوج تقریباً ایک لاکھ افغانوں کے محاصرے میں آ گئی یہ تقریباً وہی صورتحال تھی جو اٹھارہ سو بیالیس، ایٹین فورٹی ٹو میں انگریز فوج کو کابل چھاؤنی میں پیش آئی تھی۔ ٹائم بھی تقریباً وہی تھا۔ یعنی دسمبر کا مہینہ جب سخت سردی اور برفباری کی وجہ سے انگریزوں کا کابل سے ہندوستان فرار بھی ناممکن ہو چکا تھا۔ شیرپور چھاؤنی ہی انگریزوں کی آخری پناہ گاہ تھی وہ اسے چھوڑنے کا رسک نہیں لے سکتے تھے۔
اس لئے جنرل رابرٹس چھاؤنی کے حفاظتی انتظامات کو بہتر بنانے میں لگے رہے اور افغان حملے کا انتظار کرتے رہے۔ انہوں نے ایک سخت قدم یہ اٹھایا کہ شیرپور چھاؤنی کی تعمیر میں مدد دینے والے ہزارہ شہریوں کو چھاؤنی سے نکال دیا۔ افغان جنگجوؤں نے چھاؤنی سے نکالے گئے ان لوگوں میں سے زیادہ تر کو تشدد کا نشانہ بنایا اور بہت سے لوگوں کو ہلاک بھی کیا گیا۔ انگریز چھاؤنی کا محاصرہ تقریباً ایک ہفتہ جاری رہا۔ بائیس اور تئیس دسمبر اٹھارہ سو اناسی، ایٹین سیونٹی نائن کی درمیانی رات چھاؤنی کے قریب کوہِ آسمائی کی پہاڑیوں سے کچھ شعلے بلند ہوئے جو کافی بلندی پر جا کر بُجھ گئے۔
یہ افغانوں کیلئے حملہ شروع کرنے کا سگنل تھا۔ جلد ہی فضا فلک شگاف نعروں سے گونجنے لگی۔ ہر طرف سے چھاؤنی پر بندوقوں اور توپوں سے حملہ شروع ہو گیا۔ اس گولہ باری کی آڑ میں ہزاروں افغان جنگجو اپنے سبز پرچم لہراتے ہوئے پہاڑوں سے اترے اور چھاؤنی پر ٹوٹ پڑے۔ یہ بہت بڑی افغان فوج تھی۔ ہر طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ آ رہی تھی اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ برطانوی فوج نے بھی اپنی مشین گنز، رائفلز اور توپوں سے جوابی فائر کھول دیا۔
افغان جنگجو اپنے ساتھ سیڑھیاں بھی لائے تھے جن کے ذریعے وہ چھاؤنی کی دیواروں پر چڑھنا چاہتے تھے۔ لیکن جب بھی وہ دیواروں پر چڑھنے کی کوشش کرتے، برطانوی فوجی اوپر سے ان پر گولیوں کی برسات کر دیتے کیونکہ اب ان کے پاس مشین گن تھی۔ چھاؤنی کی چار دیواری کے نیچے کئی جگہوں پر افغان جنگجوؤں کی لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ دھماکوں اور گھن گرج کے بیچ میں اچانک جنرل رابرٹس کو اپنے بوڑھے مسلمان ملازم کی آواز سنائی دی۔ وہ کہہ رہا تھا صاحب آپ کے نہانے کیلئے پانی تیار ہے۔
ان الفاظ پر جنرل رابرٹس بے اختیار مسکرا دیئے۔ اب یہ ملازم کی سادگی تھی یا افغانوں کی مدد کی معصومانہ سی کوشش۔ ہم نہیں کہہ سکتے۔ بہرحال جنرل رابرٹس نے اپنے ملازم کو اگنور کیا اور محاذ پر ڈٹے رہے۔ یہ لڑائی رات کو شروع ہوئی تھی اور اگلے روز یعنی تئیس دسمبر کی دوپہر تک جاری رہی۔ اس دوران افغان کمانڈر محمد جان نے انگریزوں کی شدید مزاحمت کو دیکھتے ہوئے صلح کی ایک کوشش بھی کی۔ انہوں نے جنرل رابرٹس کو پیغام بھیجا کہ انگریز افغانستان خالی کر دیں، یعقوب خان کی حکومت بحال کر دیں اور دو اعلیٰ انگریز افسر بطور یرغمالی دیں تو لڑائی رک سکتی ہے۔
تاہم جنرل رابرٹس نے اس پیغام کا جواب تک دینا گوارہ نہیں کیا اور لڑائی جاری رکھی۔ صبح ہونے کے بعد لڑائی میں انگریزوں کا پلہ بھاری ہونے لگا۔ افغان حملہ آور زیادہ تعداد کے باوجود رات بھر شیرپور چھاؤنی میں داخل نہیں ہو سکے تھے۔ صبح جب انہوں نے چھاؤنی کی دیواروں کے نیچے اپنے ہزاروں ساتھیوں کی لاشیں دیکھیں تو ان کے حوصلے دم توڑنے لگے۔ دوپہر تک افغانوں کے حملے سست ہو چکے تھے۔