NewsWorld EmpiresWorld history

Alexander vs Porus Battle of the Hydaspes Urdu Part 1

Alexander vs Porus Battle of the Hydaspes Urdu Part 1

تین سو چھبیس بی سی ای میں اسکندر یونانی کی ایمپائر یورپ سے ایشیا تک پھیل چکی تھی۔ وہ شمال مغربی ہندوستان تک آ چکے تھے اور یہاں سے آگے ہندوستان کی مکمل فتح ہی ان کا مشن تھا۔ وہ آگے بڑھے اور موجودہ خیبرپختونخواہ کا ریجن فتح کرنے کے بعد اٹک کی طرف سے دریائے سندھ عبور کر کے پنجاب میں داخل ہو گئے سامنے دریائے سندھ اور جہلم کے درمیانی علاقے میں ٹیکسلا یا تکشلا کی سلطنت تھی۔ اس سلطنت کے راجہ ’’امبھی‘‘ نے اسکندر یونانی کی اطاعت قبول کر لی تھی۔ یہاں تک الیگزینڈر کے لیے سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔

لیکن اس سے آگے ان کی رفتار کو جہلم اور چناب کے درمیانی علاقے کے حکمران راجہ پورس نے بریک لگا دی۔ راجہ پورس نے سکندر اعظم کے سامنے جھکنے یا انھیں راستہ دینے سے انکار کر دیا۔ سو اب صورتحال یہ ہوئی کہ راجہ پورس ہندوستان اور اسکندر یونانی کے درمیان دیوار کی طرح حائل ہو گئے۔ انھیں شکست دئیے بغیر الیگزینڈر کی فوج ہندوستان میں آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔ یونانی کمانڈر نے انہیں پیغام بھیجا کہ دریائے جہلم کے کنارے آ کر مجھ سے ملو اور سر جھکا دو۔ راجہ پورس نے جواب بھیجا کہ ہاں میں دریا کے کنارے آ تو رہا ہوں لیکن اپنی فوج اور ہتھیاروں کے ساتھ اسکندر اعظم سمجھ گئے کہ ہندوستان فتح کرنے کا خواب راجہ پورس کو شکست دئیے بغیر ممکن نہیں ہے۔

Kurulus Osman Season 4 Episode 133

720p

چنانچہ تھری ٹوئنٹی سکس بی سی ای میں دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر ہَرن پور کے علاقے میں یونانی فوج خیمہ زن ہو گئی۔ جبکہ دریا کے مشرقی کنارے پر راجہ پورس اپنی فوج کے ساتھ موجود تھے۔ یہ مون سون کا موسم تھا۔ طوفانی بارشوں کی وجہ سے دریائے جہلم بپھرا ہوا تھا۔ اسکندر یونانی کیلئے جہلم کو عبور کرنا ایک چیلنج تھا۔ تو کیا انھوں نے یہ چیلج قبول کیا؟ راجہ پورس نے سکندر یونانی کی یلغار کو کیسے روکا؟ جنرلز اینڈ بیٹلز سیریز سیزن تھری کی تیسری قسط میں ہم آپ کو راجہ پورس اور اسکندر اعظم کی تاریخی لڑائی دکھائیں گے الیگزینڈر جہلم کی جنگ کیلئے جو لشکر لائے تھے اس میں تقریباً چالیس ہزار پیدل سپاہی سات ہزار گھڑسوار شامل تھی۔

اس کے علاوہ ان کے اتحادی ٹیکسلا کے راجہ امبھی نے بھی پانچ ہزار ہندوستانی سپاہی اسکندر کی مدد کیلئے بھیجے تھے۔ ان سب کو ملا کر یونانی فوج کی تعداد باون ہزارہو گئی تھی۔ اس فوج کے مقابلے میں راجہ پورس کے پاس پینتیس ہزار پیدل یعنی انفنٹری تھی اور چار ہزار، فور تھاؤزنڈ گھڑسوار دستے یعنی کیولری تھی۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کم از کم ایک سو تیس ہاتھی اور تین سو رتھ یعنی چیریٹس بھی موجود تھے۔ یہ تمام فوج ملا کر پچاس ہزار، ففٹی تھاؤزنڈ کے قریب بنتی تھی۔ یعنی معمولی فرق سے اسکندر اعظم کی فوج راجہ پورس سے زیادہ تھی۔

راجہ پورس کو یہاں ایک عارضی ایڈوانٹیج یہ حاصل تھا کہ مون سون کی بارشوں نے دریائے جہلم کو عارضی طور پر یونانی فوج کیلئے ناقابلِ عبور بنا دیا تھا۔ جس کی وجہ سے راجہ پورس کے پاس اپنی فوجی حکمت عملی ترتیب دینے کا وقت موجود تھا۔ راجہ نے اپنی پوزیشن کے اردگرد میلوں دور تک چھوٹی چھوٹی چوکیاں قائم کر دیں۔ ان چوکیوں میں تعینات ہندوستانی سپاہی چوبیس گھنٹے یونانی فوج پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی گھڑسوار دستے دریا کے ساتھ ساتھ پٹرولنگ بھی کرتے رہتے تھے تاکہ کہیں سے بھی دشمن دریا پار کرنا چاہے تو اسے روکا جا سکے۔

راجہ پورس نے ایک اور انتظام یہ کیا تھا کہ اپنے ہاتھی دریا کے ساتھ یونانی فوج کے بالکل سامنے تعینات کر دیئے تھے۔ یہ دیوہیکل جانور جب ادھر ادھر چلتے پھرتے اور چنگھاڑتے تو دریا کے دوسری جانب یونانی فوج کے گھوڑے خوفزدہ ہو کر بدکنے لگتے۔ اسکندر اعظم کو یقین ہو گیا تھا کہ اگر انہوں نے ان ہاتھیوں کی موجودگی میں دریا عبور کرنے کی کوشش کی تو ان کے گھڑسوار دستے تباہ ہو جائیں گے۔ لیکن کسی بھی صورت آگے بڑھنے کے لیے الیگزینڈر کو دریائے جہلم عبور کرنا ہی کرنا تھا اور اس کے لیے انھیں بڑی تعداد میں مضبوط کشتیاں چاہیے تھیں۔

لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنی کشتیاں اٹک کے قریب ہی کچھ سپاہیوں کے ساتھ دریائے سندھ میں چھوڑ آئے تھے۔ سو اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ان کے حکم پر یونانی سپاہی ان کشتیوں کو الگ الگ حصوں میں توڑ کر بیل گاڑیوں پر لاد کر دریائے جہلم کے کنارے لے آئے تھے۔ یہاں ان پارٹس کو جوڑ کر دوبار کشتیوں کو مکمل کیا گیا۔ لیکن مسئلہ پھر وہی تھا کہ راجہ پورس کی فوج کی موجوگی میں دریا عبور نہیں ہو سکتا تھا۔ اور اگر یونانی فوج اپنا کیمپ چھوڑ کر کسی اور جگہ سے دریا عبور کرنا چاہتے تو ہندوستانی فوج بھی وہاں پہنچ سکتی تھی۔

سو دریا عبور کرنے کا صرف ایک طریقہ تھا کہ راجہ پورس کو یہ دھوکا دیا جائے کہ گریک آرمی مون سون ختم ہونے تک دریا عبور نہیں کرے گی، یہیں رہے گی۔ پھر اس دوران کسی ایسی جگہ سے جہاں ہندوستانی فوج موجود نہ ہو، دریائے جہلم پار کر لیا جائے۔ اسکندر یونانی نے اسی طریقے پر عمل کیا۔ انہوں نے حکم جاری کیا کہ یونانی فوجی دستے دریا کے کنارے کھڑے ہو کر ہر روز ایسا تاثر دیں جیسے وہ دریا عبور کرنے والے ہیں۔ اس حکم کے بعد سے یونانی گھڑسوار دستے اور پیدل سپاہی روزانہ دریا کے کنارے کھڑے ہو جاتے جنگ کے نقارے بجاتے نعرے بلند کرتے اور ایسا تاثر دیتے کہ بس وہ ابھی دریا میں کود پڑیں گے اور حملہ شروع ہو جائے گا۔

یہ دیکھ کر ہندوستانی فوج کے سپاہی بھی جواب میں اپنی صف بندی کر لیتے۔ لیکن ہوتا یہ کہ کچھ دیر بعد یونانی فورسز اپنے کیمپ لوٹ جاتیں اور ہندوستانی سپاہیوں کو بھی پیچھے ہٹنا پڑتا۔ روز روز کی اس بے فائدہ مشق سے ہندوستانی سپاہی تنگ آنے لگے۔ دوسری طرف اسکندر اعظم کے حکم پر یونانی گھڑسوار دستوں نے مغربی کنارے پر مختلف دیہات وغیرہ سے خوراک کے ذخیرے جمع کرنا شروع کر دیئے۔ جو ہندوستانی سوار دریا کے کنارے پٹرولنگ کرتے تھے وہ روز دیکھتے کہ خوراک سے لدے چھکڑوں کے چھکڑے یونانی کیمپ میں پہنچ رہے ہیں۔ ان رپورٹس سے وہ یہ سمجھے کہ دشمن مون سون کیلئے خوراک جمع کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بارشوں کا موسم گزرنے سے پہلے حملہ نہیں کرے گا۔

Alexander vs Porus Battle of the Hydaspes Urdu Part 2

یعنی یہ جو روز روز کی صف بندی ہو رہی ہے یہ صرف ہمیں تنگ کرنے کیلئے ہے دراصل یونانی فوج تو اپنا خوراک اور پانی کا سامان جمع کر رہی ہے۔ چنانچہ راجہ پورس نے اپنی فوج کو روزانہ الرٹ ہونے سے، صف بندی کرنے سے روک دیا۔ مگر یونانی اسی طرح روز نکلتے، نقارے بجاتے اور شام سے پہلے واپس چلے جانے کی ایکٹنگ کرتے رہے۔ ان کے مقابلے میں ہندوستانی فوج اب ذرا بھی الرٹ نہیں ہوتی تھی۔ پھر ایک اور تبدیلی یہ آئی کہ دریا کے کنارے پٹرولنگ کرنے والے ہندوستانی سپاہی اور ان کی چوکیاں بھی غافل ہو گئیں۔ سب کو یقین تھا کہ جنگ میں ابھی بہت دیر ہے خوامخواہ خود کو تھکانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان کا پلان اب کامیاب ہو رہا تھا۔ چنانچہ اب انہوں نے جہلم کراس کرنے کی پلاننگ شروع کر دی۔

Related Articles

Back to top button