NewsWorld EmpiresWorld history

Alexander vs Porus Battle of the Hydaspes Urdu Part 2

Alexander vs Porus Battle of the Hydaspes Urdu Part 2

مائی کیوریس فیلوز اسکندر یونانی کے گھڑ سوار دستوں نے دریا کے ساتھ ساتھ پٹرولنگ شروع کی۔ پھر انہوں نے اپنے کیمپ سے ستائیس، ٹوئنٹی سیون کلومیٹر دور ایک ایسا مقام ڈھونڈ نکالا جہاں دریائے جہلم کے اندر ایک جزیرہ تھا۔ اس جزیرے کے دونوں جانب دریا کا پاٹ بہت کم چوڑا تھا۔ گہرائی بھی زیادہ نہیں تھی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ جزیرے پر اور دریا کے مغربی کنارے پر یعنی یونانیوں والی سائیڈ پر گھنا جنگل تھا۔ یہ جنگل یونانی فوج کو ہندوستانیوں کی نظروں سے چھپانے کیلئے کافی تھا۔ اسکندر یونانی کا پلان دھیرے دھیرے کامیاب ہو رہا تھا۔ راجہ پورس اپنی جگہ مطمئن ہو گئے تھے کہ حملہ مون سون کے بعد ہی ہو گا۔

ہندوستانی فوج بھی زیادہ الرٹ نہیں رہی تھی۔ تو ایک رات اسکندر اعظم نے اپنے منصوبے پر عمل شروع کر دیا۔ انہوں نے اپنا شاہی خیمہ دریا کے قریب ایسی جگہ نصب کر دیا جہاں سے مشرقی کنارے پر موجود ہندوستانی فوجی اسے دیکھ سکیں۔ خیمے کے باہر سپاہی بھی تعینات کر دیئے گئے تا کہ دیکھنے والے کو لگے کہ یونانی بادشاہ اندر ہی موجود ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ کیمپ میں معمول کے مطابق آگ کے الاؤ روشن کریں جن سے دشمن کو یہی تاثر ملے کہ پوری یونانی فوج کیمپ میں موجود ہے۔

Kurulus Osman Season 4 Episode 133

480p

یہ سارے انتظامات کرنے کے بعد انہوں نے پانچ ہزار گھڑسوار دستوں اور دس ہزار پیدل سپاہیوں کو ساتھ لیا اور اس جزیرے کی طرف چل پڑے جہاں سے دریا عبور کرنا تھا۔ جلد ہی یونانی فوج اپنی منزل پر یعنی اس جزیرے کے پاس پہنچ گئی۔ یونانیوں نے اپنی کشتیاں پہلے ہی جزیرے کے پاس موجود جنگل میں چھپا دی تھیں۔ اسکندر کے حکم پر یہ کشتیاں دریا میں ڈال دی گئیں اور فوج ان کشتیوں کے ذریعے دریا عبور کرنے لگی۔ کچھ ہی گھنٹوں میں زیادہ تر یونانی فوج اور خاص طور پر گھڑسوار دستے دریا عبور کر چکے تھے۔ اسکندر نے فوری طور پر اپنی گھڑسوار فوج کو راجہ پورس کی فورسز کی طرف بڑھنے کا حکم دیا۔

گھڑسوار آگے بڑھے لیکن انہیں حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ ان کے سامنے ایک اور بپھرا ہوا دریا کھڑا تھا۔ یونانی سپاہیوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ دوسرا دریا کہاں سے آ گیا؟ کیا وہ راستہ بھٹک گئے ہیں؟ جنگ میں آپ جانتے ہیں کہ اندازے کی، کیلکولیشن کی معمولی سی غلطی بھی پانسہ پلٹ سکتی ہے۔ یونانی بھی اسی لیے سخت پریشان تھے۔ انہوں نے تھوڑی بھاگ دوڑ کی تو معلوم ہوا کہ جسے وہ مین لینڈ یعنی دریا کے پار والی زمین سمجھ رہے تھے وہ اصل میں ایک اور جزیرہ تھا جو دریائے جہلم میں ہی واقع تھا۔ مطلب، تھے تو وہ درست راستے پر، بس دوسرا جزیرہ ان کی نظر سے اب تک اوجھل تھا۔ لیکن ظاہر ہے یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔

سو یونانی فوج نے دریا کراس کرنا جاری رکھا۔ بلکہ انھوں نے گہرائی کا اندازہ کرنے کے بعد اس جگہ کشتیوں کے بجائے اپنے گھوڑوں پر پانی میں سفر جاری رکھا۔ پیدل سپاہی بھی گردن تک بہتے پانی میں اتر گئے۔ یوں یہ پوری یونای فوج دریا عبور کر گئی۔ اسکندر اعظم کو ایک فائدہ یہ ہوا کہ سفر کے دوران گھن گرج کے ساتھ طوفانی بارش کا آغاز ہو گیا۔ اس بارش اور بادلوں کی گرج سے یونانی فورسز کی پیش قدمی کا شوروغوغا بھی کسی کو سنائی نہیں دیا۔ یوں اسکندر یونانی اپنے پلان کے مطابق فوج کو کامیابی سے دریائے جہلم کے مشرقی کنارے تک لے آئے لیکن یہاں آتے ہی ان کا راز کھل گیا۔

اس وقت تک صبح ہو چکی تھی۔ ہندوستانی فوج غافل تو ضرور تھی لیکن اس کے گھڑسوار دریا کے ساتھ معمول کی پٹرولنگ کرتے رہتے تھے۔ ایسے ہی ایک سوار دستے نے یونانی فوج کو دیکھ لیا۔ وہ آناً فاناً پلٹے اور راجہ پورس کے پاس پہنچ کر دشمن کی آمد کی خبر دے دی۔ لیکن دوستو راجہ پورس اس خبر سے الیگزینڈر کی پوری جنگی چال نہیں سمجھ سکے۔ وجہ یہ تھی کہ ساری یونانی فوج تو ان کے سامنے اپنے کیمپس میں موجود تھی۔ انہیں لگا کہ غالباً دشمن نے ان کی توجہ ہٹانے کیلئے کوئی چھوٹا موٹا دستہ دریا کے پار بھیج دیا ہے۔ تا کہ جیسے ہی ہم اس دستے کی طرف متوجہ ہوں گے سامنے یونانی کیمپ والی ساری فوج دریا پار کر کے ہم پر چڑھائی کر دے۔

یہ سوچ کر انہوں نے اپنے ایک بیٹے کو محض دو ہزار سپاہیوں اور ایک سو بیس رتھوں، چیریٹس کے ساتھ یونانی فورسز سے لڑنے کیلئے بھیج دیا۔ یہ راجہ پورس کی بہت بڑی غلطی تھی۔ یہ فوج یونانی فورسز سے بہت ہی کم تھی۔ جیسے ہی ہندوستانی فورسز، یونانیوں کے نزدیک پہنچیں اسکندر کے گھڑسوار ان پر ٹوٹ پڑے۔ انہوں نے دشمن کو گھیر کر اس کا صفایا کر دیا۔ چار سو ہندوستانی سپاہی اور پورس کا بیٹا مارے گئے تمام چیریٹس بھی تباہ ہو گئیں۔ چیریٹس کی تباہی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ رات بھر بارش کی وجہ سے دریا کے قریب زمین دلدلی ہو چکی تھی۔

اس زمین چیریٹس کے پہیے پھنس جاتے تھے اور وہ تیز رفتاری سے حملہ نہیں کر سکتی تھیں۔ مختصر یہ کہ یونانیوں نے اپنی پہلی جھڑپ جیت لی تھی جس سے ان کے حوصلے بلند ہو گئے تھے۔ لیکن اسکندر اعظم کو ایک نقصان بہرحال ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا محبوب گھوڑا “بیوسیفالس” بھی اس جھڑپ میں ایک تیر لگنے سے مارا گیا۔ بہرحال جب شکست خوردہ ہندوستانی سپاہی راجہ پورس کے پاس پہنچے تو تب انھیں سمجھ آئی کہ دھوکا ہو گیا ہے۔ یونانی فوج کا بڑا حصہ تو کسی اور جگہ سے دریا پار کر بھی چکا۔

سو اب راجہ پورس نے اپنی فوج کا ایک بڑا حصہ یونانی کیمپ کے سامنے دریا جہلم کے کنارے چھوڑ دیا تاکہ وہ کیمپ والوں کو دریا پار کرنے سے روک سکیں۔ اس کے بعد وہ بیس ہزار پیدل اور دو ہزار گھڑسوار دستوں اور تمام ہاتھیوں کو لے کر یونانیوں کے مقابلے کیلئے نکل پڑے۔ وہ خود بھی ایک ہاتھی پر سوار تھے۔ اس بلند پوزیشن سے وہ میدانِ جنگ کی صورتحال پر نظر رکھ کر احکامات جاری کر رہے تھے۔ اس طرح اب یہ پوری فوج اسکندر اعظم کے مقابلے پر پہنچ گئی۔ لیکن دوستو یہاں بھی اسکندر اعظم نے ایک زبردست چال چلی

۔ انہوں نے اپنی فوج کے بائیں بازو، لیفٹ ونگ کو دشمن کی نظروں سے اوجھل رکھا تھا۔ یعنی کچھ پیچھے درختوں وغیرہ میں چھپا دیا تھا۔ صرف سینٹر میں پیدل فوج اور دائیں طرف اسکندر یونانی کی کمان میں کچھ گھڑسوار دستے سامنے کھڑے تھے۔ دور کھڑے ہندوستانیوں کو یہی اندازہ ہو رہا تھا کہ اسکندر اعظم کے پاس فوج بہت ہی کم ہے اندازے سے۔ ہندوستانی فوج کی ترتیب یوں تھی کہ دائیں اور بائیں طرف گھڑسوار دستے کھڑے تھے۔

Alexander vs Porus Battle of the Hydaspes Urdu Part 3

گھڑسوار دستوں کے آگے رتھ کھڑے تھے۔ درمیان میں پیدل فوج تھی اور پیدل فوج کے آگے ہاتھی کھڑے تھے۔ ہاتھیوں کے درمیان میں سو، سو فٹ کی خالی جگہیں تھیں جہاں سے پیدل دستے آگے بڑھ کر حملہ کر سکتے تھے۔ اس ترتیب کے ساتھ راجہ پورس نے حملہ کر دیا۔ اسکندر اعظم نے سب سے پہلے براہِ راست لڑائی کرنے کے بجائے تیراندازوں کو حرکت دی۔ یہ گھوڑوں پر سوار تھے وہ دشمن کے بائیں بازو کی طرف بڑھے اور اس کے آگے کھڑے رتھوں پر تیروں کی بارش کر دی۔ کچھ ہی دیر میں رتھوں کے گھوڑے اور ان پر موجود سپاہی مارے جا چکے تھے یا فرار ہو رہے تھے۔

Related Articles

Back to top button