Alexander vs Porus Battle of the Hydaspes Urdu Part 3
Alexander vs Porus Battle of the Hydaspes Urdu Part 3
رتھوں کی یہ فورس بیکار گئی تھی۔ اس کے بعد اسکندر یونانی نے اپنے گھڑسوار دستے آگے بڑھائے اور ہندوستانی بائیں بازو پر جس کے رتھ بیکار ہو چکے تھے اس کے پیچھے کھڑے گھڑسواروں پر حملہ کر دیا۔ لیکن سینٹر والی پیدل یونانی فوج نے کوئی حملہ نہیں کیا۔ اب ایسا تھا کہ یونانی گھڑسوار جو حملہ کر رہے تھے وہ تعداد میں بہت ہی کم لگ رہے تھے۔ اپنے ہاتھی سے راجہ پورس یہ سب دیکھ رہے تھے۔ انہیں دشمن کے بائیں بازو کے گھڑسوار بھی نظر نہیں آ رہے تھے کیونکہ وہ تو چھپے ہوئے تھے۔ اس لئے انہوں نے سینٹر کے دوسری طرف کھڑے گھڑسوار دستوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی پوزیشن چھوڑ کر فوری بائیں جانب پہنچیں اور وہاں لڑنے والے گھڑسواروں کی مدد کریں۔
ان کا خیال تھا کہ ایسا کر کے وہ اسکندر کی تھوڑی سی گھڑسوار فوج کو ہرا دیں گے جس کے بعد پیدل دستوں سے نمنٹے میں زیادہ مسئلہ نہیں ہو گا۔ یوں دائیں طرف والے ہندوستانی گھڑ سوار اور ان کے پیچھے موجود رتھ اپنی پوزیشن خالی کر کے بائیں جانب آ گئے جہاں اسکندر یونانی ہندوستانی گھڑسواروں سے لڑ رہے تھے۔ جیسے ہی یہ سوار اس سائیڈ پر پہنچے اسکندر یونانی نے اپنا ماسٹر اسٹروک کھیل دیا۔ انہوں نے اپنے چھپے ہوئے گھڑسوار دستوں کو حملے کا حکم دے دیا۔ یہ گھڑسوار دستے لپکتے ہوئے آئے اور ہندوستانی فوج کے عقب سے چکر لگا کر بائیں جانب پہنچ گئے۔
Kurulus Osman Season 4 Episode 133
انہوں نے ہندوستانی گھڑسواروں پر پیچھے سے حملہ کر دیا۔ اب یہ ہندوستانی گھڑسوار اور ان کے رتھ دو اطراف سے گھیرے میں تھے۔ جبکہ ایک سائیڈ سے یونانی تیرانداز ان پر مسلسل تیر برسا رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستانی کیولری اور ان کے بچے کھچے رتھوں کا بھی صفایا ہو گیا۔ اب ہندوستانیوں کا دایاں اور بایاں بازو ٹوٹ چکے تھے۔ صرف سینٹر والی پیدل فوج اور اس کے سامنے کھڑے ہاتھی ہی باقی تھے۔ اب یونانی گھـڑ سوار دستوں نے دائیں اور بائیں سائیڈ سے ہندوستانی انفنٹری پر حملہ کر دیا۔ سامنے کھڑی سینٹر والی فوج اپنے لمبے نیزوں کے ساتھ آگے بڑھی اور ہاتھیوں اور ان کے درمیان میں جو سو، سو فٹ کا گیپ تھا اس سے گزر کر ہندوستانی انفنٹری پر بھی حملہ کر دیا۔
جب یونانی فوج آگے بڑھ رہی تھی تو ہندوستانیوں کے پاس انہیں تباہ کرنے کا بہترین موقع تھا۔ وہ اس طرح کہ راجہ پورس کی فوج کے پاس بڑی بڑی کمانیں تھیں جو یونانیوں کی کمانوں سے بہتر تھیں۔ ان کمانوں سے تیروں کی بارش کر کے آگے بڑھتے دشمن کو سخت نقصان پہنچایا جا سکتا تھا۔ لیکن ان کمانوں میں ایک تکنیکی مسئلہ تھا۔ وہ کہ کمانوں کو نچلا حصہ زمین پر رکھ کر ہی تیر چلائے جا سکتے تھے۔ ان کمانوں کی ٹیکنیک ایسی تھی بناوٹ ایسی تھی لیکن اس کے لیے زمین کا خشک ہونا لازمی تھا لیکن زمین تو آپ جاتے ہیں دلدلی ہو چکی تھی، وہاں پر کمان پھسل جاتی تھی۔
سو کیچڑ ہی کیچڑ تھا چاروں طرف۔ اور اس کیچڑ میں تیر چلانے کی کوشش میں بار بار ہندوستانیوں کی کمانیں پھسل جاتی تھیں اور ان کا نشانہ غلط ہو جاتا تھا۔ سو یہ بہترین کمانیں بھی بدقسمتی سے راجہ پورسں کی کوئی مدد نہ کر سکیں۔ یونانی فوج ان کے تیراندازوں سے بچتے ہوئے آگے بڑھ آئی جس کے بعد دونوں طرف کے پیدل دستے ٹکرا گئے۔ اس موقع پر ایک تاریخی گھمسان کی جنگ ہوئی۔ جس میں راجہ پورس کے سپاہی جی جان سے لڑے اس دوران پورس کے ہاتھیوں نے یونانی فوج کو بہت نقصان پہنچایا۔ ان ہاتھیوں کو جنگ کیلئے خاص طور پر ٹریننگ دی گئی تھی۔
دشمن کا جو سپاہی ان کی زد میں آتا وہ اسے اپنے قدموں تلے روند ڈالتے یا اپنی سونڈ میں لپیٹ کر زمین پر پٹخ دیتے۔ کئی ہاتھیوں نے تو اپنے لمبے دانتوں، ٹسکس کو دشمن سپاہیوں کے جسموں میں گھونپ کر ہلاک کر دیا۔ ہاتھیوں پر بیٹھے سپاہی بھی مسلسل یونانیوں پر تیروں اور نیزوں کی برسات کر رہے تھے۔ ایسے میں اسکندر یونانی نے بھی ہاتھیوں سے نمٹنے کی ایک اسٹریٹجی بنا لی۔ وہ یوں کہ جلد ہی یونانی تیر اندازوں نے ہر ہاتھی کو الگ الگ گھیرنا شروع کیا۔ پھر یہ تیر انداز ہاتھیوں کو چلانے والے مہاوتوں کو نشانہ بنانے اور مارنے لگے۔
دوسری طرف یونانی انفنٹری کے دستے اپنے لمبے نیزے ہاتھیوں کی آنکھوں میں چبھونے لگے۔ کچھ سپاہیوں نے اپنی تلواروں سے ان کی سونڈوں اور پیروں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں ہاتھی اندھے یا شدید زخمی ہو چکے تھے اور انہیں کنٹرول کرنے والے مہاوت بھی مارے جانے لگے۔ اب یہ ہاتھی شتر بے مہار میدان جنگ میں بھٹک رہے تھے۔ بپھرے ہاتھوں نے اپنے اوپر سوار سپاہیوں کو گرانا شروع کر دیا۔ سامنے سے آتے تیروں سے بچتے کے لیے ہاتھی مڑ کر اپنی ہی پیدل فوج کو روندتے ہوئے سرپٹ پیچھے کو بھاگے۔ ان ہاتھیوں نے ہندوستانی فوج کو بے پناہ نقصان پہنچایا۔ آج بھی ’’پورس کے ہاتھی‘‘ ایک ضرب المثل ہے جسے اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی اپنا ہی اپنوں کو نقصان پہنچانے لگے۔
بہرحال ہاتھیوں کے میدان جنگ سے ہٹنے کے بعد یونانیوں کا پلہ بھاری ہونے لگا۔ لیکن ایک ہاتھی ابھی تک میدان میں کھڑا تھا۔ یہ راجہ پورس کا ہاتھی تھا جس پر وہ خود سوار تھے۔ اگرچہ ہندوستانی فوج دشمن کے گھیرے میں آتی جا رہی تھی لیکن راجہ میدان چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔ وہ اپنے کچھ جانثاروں کے ساتھ مسلسل جنگ جاری رکھے ہوئے تھے۔ اس دوران ان کا دوسرا بیٹا بھی مارا گیا۔ راجہ پورس کو تیروں اور نیزوں کے کئی زخم لگے۔ ایک موقع پر وہ ایک تیر لگنے سے کچھ دیر کے لیے بیہوش بھی ہوئے لیکن میدان میں ڈٹے رہے۔ ہسٹورین پلوٹارک کے مطابق راجہ پورس کا ہاتھی بہت ذہین جانور تھا۔
اس کی خاص تربیت ہوئی تھی جب تک اسے یقین تھا کہ اس کا مالک راجہ پورس محفوظ ہے وہ بھی ڈٹا رہا، الٹے قدموں نہیں بھاگا۔ جو یونانی سپاہی راجہ کی طرف بڑھتے ہاتھی الٹا ان پر حملہ کر کے انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیتا۔ لیکن جب ہاتھی کو احساس ہوا کہ اس کا مالک زخمی ہو چکا ہے اور کسی بھی وقت نیچے گر سکتا ہے تو وہ گھٹنے ٹکا کر زمین پر بیٹھ گیا تاکہ پورس نیچے گریں نہیں بلکہ اتر جائیں۔ شاید یہ اس کی ٹریننگ کا حصہ ہو۔ دوستو ہاتھی کے بیٹھنے کے بعد راجہ پورس کے بچے کھچے سپاہیوں کے حوصلے بھی ٹوٹنے لگے۔
راجہ کے کچھ جانثاروں نے انہیں سمجھایا کہ اب لڑائی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ خیریت اسی میں ہے کہ دشمن کا گھیرا تنگ ہونے سے پہلے آپ میدان جنگ سے نکل جائیں۔ راجہ پورس نے ان کا مشورہ مان لیا اور پسپا ہو گئے۔ غالباً وہ اپنے ہاتھی پر ہی میدان جنگ سے روانہ ہوئے تھے۔ ان کے پیچھے ہٹتے ہی ساری ہندوستانی فوج بھی پسپا ہو گئی۔ راجہ کے وہ سپاہی جو یونانی کیمپ کے سامنے تعینات تھے ان تک بھی جب شکست کی خبر پہنچی تو وہ بھی بھاگ نکلے۔ یوں دریا پار کیمپ میں موجود یونانی فوج نے بھی جہلم عبور کیا اور بھاگتے ہوئے ہندوستانی سپاہیوں کا قتل عام کرنے لگی۔ اسکندر اعظم نے ایک تیسری فوج کو بھی اپنے کیمپ اور جس جگہ سے انہوں نے دریا پار کیا اس کے درمیانی علاقے میں تعینات کر رکھا تھا۔
Alexander vs Porus Battle of the Hydaspes Urdu Part 4
یہ فوج بھی لڑائی کے دوران کسی وقت دریا عبور کر کے باقی فورسز سے آ ملی تھی۔ یوں پوری یونانی فوج دریائے جہلم کو عبور کر چکی تھی جبکہ راجہ پورس کی فوج شکست کھا کر بھاگ رہی تھی۔ ہندوستان اور اسکندر اعظم کے درمیان راجہ پورس کی دیوار ڈھے گئی تھی۔ دریائے جہلم کی لڑائی میں تقریباً بارہ ہزار ہندوستانی سپاہی ہلاک اور نو ہزار گرفتار ہوئے۔ جبکہ یونانی فوج کا نقصان ایک ہزار تک بتایا جاتا ہے۔ لیکن آپ جانتے ہیں اس جنگ کی تاریخ تو فاتح یونانیوں نے لکھوائی تھی اور فاتحین کی لکھی تاریخ پر بہت زیادہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے یہ تعداد یقیناً مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔