NewsWorld EmpiresWorld history

Alexander vs Porus Battle of the Hydaspes Urdu Part 4

Alexander vs Porus Battle of the Hydaspes Urdu Part 4

دوستو جنگ جیتنے کے بعد اسکندر اعظم نے اپنے سپاہیوں کو بھیجا کہ وہ راجہ پورس کو گرفتار کر کے اس کے سامنے لائیں۔ یہ فوجی راجہ پورس کو زخمی حالت میں گرفتار کر کے لے آئے۔ جب انہیں اسکندر اعظم کے سامنے پیش کیا گیا تو ان کے زخموں سے خون رس رہا تھا۔ راجہ پورس ایک طویل قامت انسان تھے کہا جاتا ہے کہ کا قد سات فٹ کے قریب تھا۔ وہ زخمی اور قید کی حالت میں بھی ایک راجہ کی طرح باوقار انداز میں سکندر یونانی کے سامنے آئے۔ اس موقع پر اسکندر یونانی اور پورس پنجابی میں ایک تاریخی مکالمہ ہوا۔ فاتح الیگزینڈر نے پوچھا بتاؤ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ راجہ پورس نے جواب دیا وہی جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ سے کرتا ہے۔

اسکندر اعظم کو راجہ پورس کی حاضر جوابی، بارعب شخصیت اور بہادری نے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ انہوں نے اپنے بہترین طبیبوں سے راجہ پورس کا علاج کروایا انہیں ان کی حکومت بھی واپس کر دی بلکہ مزید علاقوں کو ان کی سلطنت میں شامل کر دیا۔ آپ کے ذہن میں رہے دوستو کہ اس زمانے میں اکثر فاتحیں یہ کیا کرتے تھے تا کہ بڑی بڑی سلطنتوں کو یا بڑے بڑے راجاوٗں کو اپنا دشمن نہ بنایا جائے کیونکہ اس طرح پھر ان کی آگے کی فتوحات میں مشکل پیش آتی تھی۔ تو یہی انہوں نے راجہ پورس کے ساتھ کیا۔ راجہ پورس نے اسکندر اعظم کی حکومت قبول کر لی اور بعد کی کئی مہمات میں اتحادی کی حیثیت سے ان کے ساتھ شامل رہے۔

Kurulus Osman Season 4 Episode 133

240p

راجہ پورس کی شکست کے بعد ہندوستان کے دروازے یونانی فورسز کیلئے کھل گئے تھے۔ مگر ہسٹورین پلوٹارک کے مطابق راجہ پورس سے جنگ نے ایک نقصان بہرحال کر دیا تھا۔ اس لڑائی اور ہندوستانیوں کی شدید مزاحمت نے یونانی فوج کے حوصلے پست کر دیئے تھے۔ اب وہ آگے بڑھنے سے کترا رہے تھے۔ جب اسکندر اعظم پیش قدمی کرتے ہوئے دریائے بیاس کے مغربی کنارے تک پہنچے تو ان کی فوج کا مورال بری طرح گر چکا تھا۔ دریا کے پار ہندوستان کی ایک اور طاقتور ایمپائر، نندا سلطنت ان سے مقابلے کی تیاری کر رہی تھی۔ یہ سلطنت مشرق میں بنگال سے لے کر مغرب میں پنجاب تک پھیلی ہوئی تھی۔

اس کا دارالحکومت پاٹلی پتر یا موجودہ بھارتی شہر پٹنہ تھا۔ نندا ایمپائر کے پاس راجہ پورس سے بھی کہیں بڑی فوج تھی۔ جب یونانیوں کو بتایا گیا کہ انہیں اب ایک اور بڑی ہندوستانی طاقت کا مقابلہ کرنا ہے تو انہوں نے بغاوت کر دی۔ یاد رکھیں دوستو کہ فوجیں جو لمبی لمبی فتوحات کے لیے برسوں ملک سے باہر رہتی ہیں ان میں ایک مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آسان فتوحات کرنے کو ترجیح دیتی ہیں انہیں پہ در پہ بڑی فوجوں طاقتور ایمپائیرز کا مقابلہ کرنا پڑے تو واقع ان کے مورال میں بہت کمی آجاتی ہے چاہے وہ جیت بھی رہے ہوں کیونکہ یہ جیت آسان جیت نہیں ہوتی تو یونانی سپاہیوں نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا اور گھر واپسی کی ضد کرنے لگے۔

اسکندر یونانی نے انہیں قائل کرنے کی بہت کوشش کی لالچ بھی بہت دیے مگر کامیاب نہیں ہوئے۔ آخر سپاہیوں کی ضد کے سامنے اسکندر اعظم بھی بے بس ہو گئے۔ انہوں نے عراقی شہر بابل جانے کا فیصلہ کیا جو کہ اس وقت ان کے ایشیائی ایمپائر کا ہیڈکوارٹر تھا۔ مائی کیوریس فیلوز ہسٹورین پلوٹارک کے مطابق یونانی سپاہیوں نے دریائے گنگا پار کرنے سے انکار کرتے ہوئے بغاوت کی تھی۔ لیکن یہ ایک بڑا تاریخی مغالطہ ہے کیونکہ اسکندر اعظم کبھی دریائے گنگا کے پاس پہنچے ہی نہیں تھے۔ یونانی فوج کی بغاوت، یہاں پنجاب میں دریائے بیاس کے کنارے ہوئی تھی۔ بہرحال اسکندر عظم نے اپنے سپاہیوں سے واپسی کا وعدہ تو کر لیا تھا لیکن وہ لوٹتے ہوئے بھی کچھ فتوحات کرنا چاہتے تھے۔

ہندوستان چھوڑنے سے پہلے انہوں نے پنجاب سے سندھ کی طرف سفر شروع کیا۔ اب راستے میں ملتان پڑتا تھا۔ جب وہ یہاں پہنچے تو ملتان کے مالائی باشندوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔ اسکندر اعظم نے ملتان قلعے پر حملہ کر دیا۔ نوجوان کمانڈر سکندر یونانی جوش میں وہ ایک بڑی غلطی بھی کر بیٹھے۔ وہ اپنے ساتھ مٹھی بھر سپاہیوں کو لے کر ایک سیڑھی سے قلعے کے اندر کود گئے۔ لیکن اس دوران سیڑھی ٹوٹ گئی اور اسکندر اعظم قلعے میں پھنس گئے مالائی باشندوں نے ان پر پوری طاقت سے حملہ کر دیا۔ سخت مقابلہ ہوا۔ اسکندر اعظم کے کئی ساتھی مارے گئے۔ اس دوران ایک مالائی تیرانداز نے قریب سے اسکندر پر ایک تیر چلایا جو ان کے سینے میں لگا اور وہ بُری طرح زخمی ہو گئے۔ کچھ ہی دیر میں باقی یونانی فوج بھی کسی طرح قلعے میں داخل ہو گئی سخت لڑائی کے بعد قلعہ فتح ہو گیا۔

اسکندر اعظم کو خون میں لت پت دیکھ کر یونانی سپاہی بپھر گئے اور انہوں نے ملتان کی تمام آبادی کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور شہر کو بری طرح تباہ و برباد کر دیا۔ ملتان کے اردگرد کی بہت سے آبادیاں بھی یونانیوں کے ظلم کا نشانہ بنیں اسکندر اعظم کو شدید زخمی حالت میں ان کے خیمے میں لے جایا گیا۔ جہاں طبیبوں نے ان کے جسم سے تیر نکال لیا لیکن خون بہت بہہ چکا تھا۔ زخم بھرنے اور صحت بحال ہونے میں کئی دن لگے۔ زخم بھرنے کے بعد سکندر نے اپنی فوج کے ساتھ بابل کی طرف سفر شروع کیا۔ دوستو سکندر اعظم نے پنجاب میں لشکر کشی کے دوران ایک شہر بھی بسایا جس کا نام اپنے محبوب گھوڑے، بیوسیفالا کے نام پر رکھا۔ یہی بیوسیفالا، پھالیہ کے نام سے آج بھی پاکستانی پنجاب کا حصہ ہے۔

دوسرا شہر جس کا نام نیکایا یعنی یونانی میں فتح، وکٹری تھا اسے بیوسیفالا سے کچھ ہی دوری پر بسایا گیا تھا۔ لیکن اب نہ یہ شہر ہے اور نہ اس کے آثار۔ بہرحال اسکندر اعظم اپنی فوج کے ساتھ پنجاب سے موجودہ صوبہ سندھ میں داخل ہوئے۔ انہوں نے اس کے بھی ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ وہ دریائے سندھ میں سفر کرتے ہوئے بحیرہ عرب تک بھی پہنچے۔ انہوں نے مجموعی طور پر ہندوستان میں کوئی پانچ ہزار چھوٹے بڑے شہر، قلعے اور دیہات وغیرہ فتح کئے تھے۔ ان فتوحات کے بعد وہ سندھ سے بلوچستان کے راستے ایران کی طرف بڑھے۔

ان کی فوج بلوچستان کی شدید گرمی اور پانی کی قلت کا مقابلہ کرتے ہوئے ایران پہنچی جہاں سے اسکندر اعظم بابل چلے گئے۔ بابل میں جون تین سو تئیس، تھری ٹوئنٹی تھری بی سی ای میں بتیس برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کے آخری لمحات بیہوشی کی حالت میں گزرے۔ اصل میں سکندراعظم کی موت کیسے ہوئی، اس پر بہت سی قیاس آرائیاں ہیں۔ ایک تھیوری یہ ہے کہ ان کے استاد ارسطو جو کہ اس وقت زندہ تھے اور یونان میں تھے انہوں نے ایک زہریلی دوا تیار کی تھی جسے یونان سے بابل بھیجا گیا۔ یہ دوا وائن میں ملا کر اسکندر اعظم کو پلا دی گئی۔ ارسطو نے انھیں زہر کیوں دیا؟

Alexander vs Porus Battle of the Hydaspes Urdu Part 1

اگر دیا تو۔ اس بارے کہا جاتا ہے کہ دونوں میں بہت اختلافات پیدا ہو چکے تھے۔ لیکن دوستو موڈرن ہسٹورینز زہر کی تھیوریز کو سچ نہیں مانتے۔ ان کے خیال میں اسکندر اعظم کی موت تھکا دینے والی طویل جنگوں، پرائے دیسوں کے بدلتے موسموں اور ملتان میں آنے والے زخموں کا فطری نتیجہ ہو سکتی ہے یا پھر ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ انھیں کوئی بیماری لاحق ہو گئی ہو۔ جیسے کہ ٹائیفائیڈ، ملیریا یا پھر کثرت شراب نوشی سے جگر کا ناکارہ ہو گیا ہو۔ یہ سب تھیوریز ہیں،کیونکہ ان کی موت کا اصل سبب کسی کو معلوم نہیں ہاں یہ معلوم ہے کہ سکندر اعظم کی فتوحات اور ان کی ایک بہت بڑی ایمپائر ایک بالکل فضول ایکسرسائیز ثابت ہوئی کیونکہ ان کی موت کے بعد سب کچھ تاش کے پتوں کی طرح بکھر گیا۔

Related Articles

Back to top button