NewsWorld EmpiresWorld history

Battle of Maiwand – History of Afghanistan p1

Battle of Maiwand – History of Afghanistan p1

برطانیہ کو افغانستان میں لڑی گئی دو لڑائیاں ہمیشہ یاد رہیں گی۔ ایک اٹھارہ سو بیالیس، ایٹین فورٹی ٹو میں کابل کے قریب برطانوی فوج کی تباہی والی لڑائی اور دوسری اٹھارہ سو اسی، ایٹین ایٹی میں میوند کی لڑائی۔ یہ لڑائی برطانیہ کی اس انتقامی کارروائی کا نتیجہ تھی جو اس نے کابل میں اپنے مشن کی ہلاکت کے بعد کی تھی لیکن میوند میں جو ہوا اس نے دی گریٹ بریٹن کو ہلا کر رکھ دیا۔ کیا میوند کی لڑائی افغانوں کی فیصلہ کُن فتح تھی؟ اس لڑائی میں ایک ملالہ بھی تھی، وہ کون تھی؟

افغانستان کی گیم آف تھرونز میں کون جیتا؟ اور کیا برطانیہ اس کارٹون کے مطابق افغانوں کو بچھوؤں کی طرح کچل پایا؟ اٹھارہ سو اسی، ایٹین ایٹی میں افغانستان کی گیم آف تھرونز کے سب سے اہم کھلاڑی تھے عبدالرحمان خان۔ وہ افغانستان کے سابق امیر دوست محمد کے پوتے اور ان کے بعد بننے والے امیر شیر علی کے بھتیجے تھے۔ ان کے والد محمد افضل خان نے افغان تخت کیلئے شیر علی سے طویل جنگ لڑی تھی۔ یہ کہانی بھی ہم آپ کو ہسٹری آف افغانستان کے دوسری سیزن کی پانچویں قسط میں دکھا چکے ہیں۔ اس جنگ میں عبدالرحمان خان نے اپنے والد افضل خان اور چچا اعظم خان کی بھرپور مدد کی تھی۔

انہی کی کوششوں سے افضل خان اٹھارہ سو چھیاسٹھ، ایٹین سکسٹی سکس میں حکمران بنے تھے۔ اگلے برس اٹھارہ سو سڑسٹھ، ایٹین سکسٹی سیون میں ان کا انتقال ہو گیا۔ پھر ان کے چھوٹے بھائی اعظم خان حکمران بنے تو عبدالرحمان خان نے ان کی بھی مدد کی تھی۔ تاہم اٹھارہ سو اڑسٹھ، ایٹین سکسٹی ایٹ میں جب شیر علی کابل پر قابض ہو گئے تو عبدالرحمان خان فرار ہو کر روسی قبضے والے سمرقند پہنچ گئے تھے۔

روسیوں نے انہیں پناہ دی اور اگلے دس، بارہ برس ان کی میزبانی کرتے رہے۔ سمرقند میں بیٹھے عبدالرحمان خان مسلسل اس انتظار میں تھے کہ کب انہیں موقع ملے اور کب وہ افغانستان پر اپنی حکومت قائم کر لیں۔ امیر یعقوب خان کی اقتدار سے دستبرداری اور افغانستان میں انگریزوں کے خلاف جاری بغاوتوں نے عبدالرحمان خان کو یہ موقع فراہم کر دیا تھا۔ انہوں نے افغانستان واپسی کی تیاری شروع کر دی۔

وطن واپسی سے پہلے عبدالرحمان خان سمرقند کے مشہور صوفی خواجہ احرار کے مزار پر حاضر ہوئے۔ یہاں انہوں نے دعویٰ کر دیا کہ انہیں خواجہ احرار نے یہ بشارت دی ہے کہ اگر وہ ان کا یعنی خواجہ احرار کا جھنڈا ساتھ لے کر نکلیں گے تو انہیں فتح ملے گی۔ اس کے بعد عبدالرحمان خان جنوری اٹھارہ سو اسی، ایٹین ایٹی میں دریائے آمو عبور کر کے افغان صوبے بدخشاں پہنچ گئے۔ ان کی توقع کے عین مطابق افغانوں نے انہیں خوش آمدید کہا اور ہزاروں کی تعداد میں ان کے پرچم تلے جمع ہونے لگے یوں ایک نیا لشکر وجود میں آ گیا۔

یہاں آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ انگریزوں نے افغانستان میں صرف کابل سے قندھار تک کے علاقے کو فتح کیا تھا۔ یعنی مشرقی، وسطی اور جنوبی، ایسٹرن، سنٹرل اور ساؤتھرن افغانستان ان کے کنٹرول میں تھے۔ تاہم شمالی اور مغربی، نارتھرن اینڈ ویسٹرن افغانستان ابھی انگریزوں کے ہاتھ نہیں آئے تھے۔ ان علاقوں کے افغان گورنرز، سابق امیر یعقوب خان کے وفادار تھے۔ جب امیر عبدالرحمان خان بدخشاں میں داخل ہوئے تو مقامی حکمرانوں نے ان کے مقابلے کی جتنی بھی کوشش کی انہیں شکست ہوئی۔

بدخشاں میں تعینات افغان فوجی دستے بھی عبدالرحمان خان سے مل گئے۔ عبدالرحمان نے اس فوج کی مدد سے بدخشاں کے دارالحکومت فیض آباد پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا کنٹرول شمالی افغانستان کے کئی دیگر علاقوں تک بھی پھیلا دیا۔ عبدالرحمان خان کی یہ کارروائیاں ظاہر ہے انگریزوں کی نظر میں بھی تھیں۔ لیکن انگریزوں نے عبدالرحمان خان کا مقابلہ کرنے کے بجائے مصلحت سے کام لیا۔ انہیں لگا کہ عبدالرحمان خان ہی وہ اتحادی ہیں جو انگریزوں کی افغانستان سے باعزت واپسی یقینی بنا سکتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ کابل کے تخت کا ایک اور دعویدار بھی سامنے آ گیا تھا جو انگریزوں کا کھلا دشمن تھا۔ یہ دشمن تھے ایوب خان جو سابق امیر یعقوب خان کے بھائی اور ہرات کے گورنر تھے۔ انہوں نے خود کو افغانستان کا نیا امیر ڈیکلیئر کر کے انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔ جب کہ ان کے مقابلے میں عبدالرحمان خان جو شمالی علاقے میں فتح یاب ہوئے تھے ان کی انگریزوں سے کوئی جنگ نہیں تھی۔ حالانکہ ان کے پاس اتنی فوج جمع ہو چکی تھی کہ وہ کابل پر حملہ کر سکیں۔ ان کے حامی بھی یہی چاہتے تھے کہ عبدالرحمان خان انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کریں جیسا ایوب خان کر چکے ہیں۔

Part 2

Related Articles

Back to top button