NewsWorld EmpiresWorld history

Battle of Maiwand – History of Afghanistan p2

Battle of Maiwand – History of Afghanistan p2

عبدالرحمان خان لکھتے ہیں کہ ان کے حامی ایک قبائلی سردار نے انگریزوں کو مخاطب کرتے ہوئے پیغام لکھ بھیجا تھا کہ فرنگیو ہمارے ملک سے نکل جاؤ۔ ورنہ ہم تمہیں نکال باہر کریں گے یا ایسا کرتے ہوئے ہم لڑتے لڑتے مر جائیں گے۔ ایک اور سردار نے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ افغانوں کی توپوں اور قلعوں کی تباہی کے معاوضے کے طور پر انگریز ایک سو کروڑ روپے ادا کریں۔ ورنہ ہم ایک بھی انگریز کو زندہ پشاور نہیں پہنچنے دیں گے۔

عبدالرحمان خان کے ایک اور حامی قبائلی لیڈر نے انگریزوں کو “دغا باز کافر” کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ تم نے ہندوستان پر چالبازی سے قبضہ کیا ہے۔ اب تم افغانستان کو بھی اسی طریقے سے ہڑپ کرنا چاہتے ہو؟ ہم تمہاری مزاحمت کریں گے اور پھر روس جیسی ایک اور طاقت بھی ہم سے مل کر تمہارے خلاف لڑے گی۔ دوستو یہ تھے عبدالرحمان خان کے حامیوں کے خیالات۔ تاہم عبدالرحمان خان نے مـصلحتاً انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان نہیں کیا۔

ان کے اس انداز سے انگریزوں کو یہی تاثر ملا کہ عبدالرحمان خان انگریزوں سے سمجھوتے پر تیار ہیں۔ ویسے بھی عبدالرحمان خان اور ایوب خان ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ دونوں کے والد یعنی شیر علی اور افضل خان افغانستان کے تخت کیلئے آپس میں لڑ چکے تھے۔ اب اسی تخت کیلئے ان کے بیٹے مدِمقابل تھے۔ اس گیم آف تھرونز میں کنگ میکر، بادشاہ گُر کا کردار انگریزوں کے ہاتھ میں تھا۔ یعنی افغانستان کے اگلے امیر کا فیصلہ انہوں نے کرنا تھا۔

ظاہر ہے انگریزوں نے عبدالرحمان کے حق میں فیصلہ دیا کیونکہ وہی تو سمجھوتے پر تیار دکھائی دیتے تھے ایوب خان تو انگریزوں سے لڑائی کے سوا کچھ نہیں چاہتے تھے۔ ہاں انگریزوں کو ایک چھوٹی سی ہچکچاہٹ ضرور تھی۔ وہ یہ کہ عبدالرحمان خان چونکہ جلاوطنی کے دوران روسیوں کے مہمان رہ چکے تھے اور خدشہ تھا کہ وہ امیر بننے کے بعد برطانیہ کی مرضی کے خلاف روس سے بھی دوستی کر لیں گے۔

تو اس پر انگریزوں نے عبدالرحمان خان کو پیشکش کی کہ اگر وہ روس سے اپنا تعلق توڑ دیں تو وہ انھیں افغان امیر تسلیم کر لیں گے، بلکہ وہ انہیں بادشاہ بنا دیں گے افغانستان کا عبدالرحمان خان اس پر تیار ہو گئے اور اقتدار کی منتقلی کیلئے انگریزوں سے باقاعدہ مذاکرات شروع کر دیئے۔ انہی مذاکرات کے دوران عبدالرحمان خان شمالی افغانستان سے پیش قدمی کر کے کابل کے قریب چاریکار کے علاقے میں پہنچ گئے۔

بیس جولائی کو چاریکار میں افغان علماء اور قبائلی سرداروں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور انہیں افغانستان کا نیا امیر تسلیم کر لیا۔ اس کے دو روز بعد بائیس جولائی کو انگریزوں نے بھی کابل میں ایک تقریب منعقد کر کے انہیں افغانستان کا امیر ڈیکلیئر کر دیا۔ اب عبدالرحمان خان، امیر عبدالرحمان کہلانے لگے۔ تاہم ابھی امیر اور انگریزوں کے درمیان شرائط طے ہونا باقی تھیں۔ امیر عبدالرحمان انگریزوں کو خط لکھ کر کہہ رہے تھے کہ میرے لوگ پوچھتے ہیں کہ میری ریاست کی حدود کیا ہوں گی؟

اس میں قندھار بھی شامل ہو گا یا نہیں؟ برطانوی حکومت کی دوستی کے بدلے انہیں برطانوی حکومت کے کس دشمن کو پیچھے دھکیلنا ہو گا؟ برطانوی حکومت انہیں اور ان کے ہم وطنوں کو کیا فائدے پہنچائے گی اور اس کے بدلے میں وہ ہم سے کیسی خدمات، سروسز چاہیں گے؟ امیر عبدالرحمان خان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس چاریکار میں تین لاکھ جنگجو جمع ہو چکے تھے۔ یہ جنگجو برطانیہ سے لڑنے پر تیار تھے لیکن امیر نے انہیں جواب دیا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ انگریز تو خود انہیں دعوت دے رہے تھے کہ وہ آ کر کابل کا تخت سنبھال لیں۔

لیکن دوستو ابھی انگریزوں اور نئے امیر کے درمیان کوئی ڈیل فائنل نہیں ہوئی تھی کہ اس کھیل کے تیسرے کھلاڑی ایوب خان نے اپنی موو کر دی۔ وہ ہرات سے نکلے اور قندھار فتح کرنے چل دیئے۔ پھر ایک ایسی لڑائی ہوئی جو افغان تاریخ میں لیجنڈ بن گئی۔ مائی کیوریس فیلوز ایوب خان نے ہرات میں جہاد کا اعلان کر کے پچیس ہزار کے قریب فوج جمع کر لی تھی۔ اس فوج کے اخراجات کیلئے انہیں ایران سے بھی مالی مدد مل رہی تھی۔

ایران اس لئے افغانوں کی مدد کر رہا تھا کیونکہ ماضی میں برطانوی مداخلت کی وجہ سے اسے ہرات سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ اب شاید وہ ایوب خان کی مدد کر کے انگریزوں سے پرانا حساب چُکتا کر رہا تھا۔ تو اب ایران کی مدد سے ایوب خان نے یہ لشکر تیار کیا اور قندھار پر قبضے کیلئے روانہ ہو گئے اس وقت قندھار انگریزوں کا قبضہ تھا۔ قندھار میں چند ہزار انگریز اور ہندوستانی فوجی تعینات تھے۔ ایوب خان کو یقین تھا کہ وہ اس فوج کو باآسانی شکست دے کر قندھار پر قبضہ کر لیں گے۔

Related Articles

Back to top button