NewsWorld EmpiresWorld history

Battle of Maiwand – History of Afghanistan p4

جب ملالہ نے یہ صورتحال دیکھی تو اس نے افغانوں کا پرچم اٹھا لیا اور اپنے ہم وطنوں کو شاعرانہ انداز میں جوش دلایا۔ اس نے کہا اے پیارے نوجوانو اگر میوند کی لڑائی میں تمہیں موت نہیں ملی تو خدا کی قسم اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ تم بعد میں شرمندگی کی تصویر بن کر زندہ رہو گے۔ میں اپنے محبوب کے خون کے اس قطرے کو اپنے ماتھے پر سجاؤں گی جو مادرِ وطن کی حفاظت کیلئے بہایا گیا ہے۔ اس قطرے کی خوبصورتی دیکھ کر باغ میں گُلاب بھی شرما جائے گا۔” ملالہ یہ کہتی اور گھوڑے پر سوار ہو کر انگریزوں پر حملے بھی کرتی جاتی۔

ملالہ کی ایسی جذباتی تقریروں اور بہادری نے افغانوں کا مورال آسمان پر پہنچا دیا۔ وہ پھر سے ثابت قدم ہو کر لڑنے لگے۔ ملالہ کی دلیری اور افغان جنگجوؤں کے زبردست حملے نے آخرکار برطانوی فوج کو شکست دے دی۔ لیکن تب تک ملالہ افغانوں کی فتح دیکھنے کیلئے زندہ نہیں تھی۔ ایک انگریز فوجی نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ انگریزوں کی شکست کے بعد ایوب خان نے ملالہ کی لاش کو اس کے آبائی گاؤں میں دفن کروا دیا۔

ملالہ کو آج افغانستان میں قومی ہیرو کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس کی کہانی افغان بچوں کو اسکول کی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ اسے فرانس میں انگریزوں کے خلاف لڑنے والی جون آف آرک کی مناسبت سے افغانستان کی جون آف آرک بھی کہا جاتا ہے۔ ہم آپ کے لیے اس پر ایک شاندار بائیوگرافیکل ڈاکومنٹری بنا چکے ہیں۔ دوستو میوند کے قریب ایک قبر بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ملالہ کی قبر ہے۔ لیکن یہاں ایک بات اور بھی بتانا ضروری ہے۔

وہ یہ کہ ماڈرن ہسٹورینز کا خیال ہے کہ میوند کی لڑائی والی ملالہ صرف ایک افسانوی کردار ہے، لیجنڈ ہے۔ ملالہ کی کہانی مبینہ طور پر بعد میں میوند کی لڑائی کو گلوریفائی کرنے کیلئے بنائی گئی ہے۔ اس کے ثبوت میں کہا جاتا ہے کہ میوند کی لڑائی کے فوری بعد لکھی جانے والی کتابوں میں ملالہ کا ذکر نہیں ملتا۔ حتیٰ کہ امیر عبدالرحمان جو اس دور کے واقعات میں اہم کردار ادا کر رہے تھے ان کی آٹوبائیوگرافی میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں ہے انہوں نے میوند کی لڑائی کا سرسری سا ذکر تو کیا ہے کہ انگریزوں کو ایوب خان کے ہاتھوں ایک شرمناک شکست ہوئی تھی۔

لیکن انہوں نے بھی ملالہ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ نہ ہی اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ ان کے دور میں ملالہ کو قومی ہیرو کا درجہ دیا گیا تھا۔ ویورز یہ بھی یاد رکھیں کہ افغانستان کی گیم آف تھرونز میں امیر عبدالرحمان اور ایوب خان تختِ کابل کیلئے ایک دوسرے کے حریف تھے۔ شاید اسی وجہ سے انہوں نے میوند کی لڑائی کو کوئی اہمیت نہیں دی تاکہ ان کے حریف ایوب خان ہیرو نہ بن سکیں۔ سو عین ممکن ہے ملالہ ایک سچا کردار ہی ہو، لیکن اس کی کہانی راوی کی تاخیر کا شکار ہوئی ہو۔

بہرحال دوستو میوند کی لڑائی میں ملالہ آئی تھی یا نہیں اس سے جنگ کے نتیجے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میوند کی لڑائی بہرحال افغانوں نے ہی جیتی تھی۔ ایوب خان اب قندھار شہر کی طرف بڑھ رہے تھے اور انگریزوں کو یہ علاقہ ہاتھ سے جاتا نظر آ رہا تھا۔ اب انگریزوں کو دو کام فوری کرنا تھے۔ ایک تو یہ کہ عبدالرحمان خان سے جلد از جلد ڈیل فائنل کی جائے اور دوسرا ایوب خان کو شکست دی جائے۔ ان میں پہلا کام تو بہت جلد ہو گیا۔

یعنی امیر عبدالرحمان سے محض چند روز کے مذاکرات کے بعد ہی ایک ڈیل فائنل ہو گئی۔ اس ڈیل کے تحت انگریزوں نے امیر عبدالرحمان سے یہ وعدہ کیا کہ اب کوئی انگریز نمائندہ کابل میں تعینات نہیں کیا جائے گا۔ افغانستان کی حکومت سوائے برطانوی حکومت کے کسی اور غیرملکی طاقت سے سیاسی تعلقات نہیں رکھیں گے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ افغانستان کی خارجہ پالیسی انگریزوں کے کنٹرول میں ہی رہے گی جو ان کی پرانی ڈیمانڈ تھی اسی طرح بلوچستان اور موجودہ خیبرپختونخوا کے جو علاقے انگریزوں نے چھینے تھے وہ افغانوں نے واپس نہیں مانگے۔

انگریزوں نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ وہ ان علاقوں پر کوئی مذاکرات نہیں کریں گے۔ یعنی یہ تقریباً معاہدہ گندمک سے ملتی جلتی ڈیل ہی تھی جو انگریزوں نے یعقوب خان سے کی تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس بار انگریز اپنا کوئی نمائندہ کابل نہیں بھیج رہے تھے جیسا کہ انہوں نے پہلے لوئیس کواگناری کو بھیجا تھا۔ انگریزوں نے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ کسی بھی بیرونی حملے کی صورت میں افغانستان کی مدد کریں گے۔ اس کے علاوہ عبدالرحمان خان کو دس لاکھ روپے گرانٹ اور کچھ توپیں بھی دی جائیں گی۔ یہ ڈیل فائنل ہونے کے چند روز بعد ہی عبدالرحمان خان کابل پہنچ گئے۔

Related Articles

Back to top button