Battle of Maiwand – History of Afghanistan p5

Battle of Maiwand – History of Afghanistan p5
انگریزوں نے شیرپور چھاؤنی، قلعہ بالا حصار اور دیگر پوزیشنز کو خالی کر دیا۔ انگریزوں نے تیس توپیں اور کابل کا تمام شاہی خزانہ امیر عبدالرحمان کے حوالے کر دیا۔ اس کے علاوہ انگریزوں نے انہیں وعدے کے مطابق دس لاکھ روپے بھی گفٹ کیے۔ کابل کا کنٹرول امیر عبدالرحمان کے حوالے کرنے کے بعد انگریزوں نے ایوب خان پر توجہ دی۔ میوند کی لڑائی کے بعد برطانیہ میں افغانوں سے نفرت کا جو ماحول تھا وہ برطانوی پریس میں شائع ہونے والے اس کارٹون سے صاف ظاہر ہے۔ گیارہ اگست اٹھارہ سو اسی، ایٹین ایٹی کو شائع ہونے والے اس کارٹون میں دکھایا گیا ہے کہ افغان بچھو ہیں جنہیں برطانیہ اپنے بوٹوں سے کچل رہا ہے۔
تو نفرت کے اس ماحول میں جنرل رابرٹس کو حکم ملا کہ وہ کابل سے قندھار جائیں اور ایوب خان کا مقابلہ کریں۔ اب ایوب خان کا سامنا برطانیہ کے سب سے تجربہ کار جنرل سے ہونے جا رہا تھا جسے نئے افغان امیر کی بھی بھرپور حمایت حاصل تھی اس جنگ کا انجام کیا ہوا؟ جنرل رابرٹس امیر عبدالرحمان کے کابل آنے سے دو روز پہلے آٹھ اگست کو قندھار کیلئے روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھ امیر عبدالرحمان کے بھیجے ہوئے کچھ نمائندے بھی تھے جو راستے میں افغان قبائل کو حکم دیتے تھے کہ وہ اس فوج کو نقصان نہ پہنچائیں۔ قبائل کو یہ حکم بھی دیا گیا کہ وہ انگریز فوج کو کھانا فراہم کریں گے۔
افغانوں نے اپنے نئے امیر کے اس حکم پر لبیک کہا اور راستے بھر انگریز فوج کی مدد کرتے رہے۔ اسی وجہ سے جنرل رابرٹس بحفاظت قندھار پہنچ گئے۔ یہ مدد والی بات امیر عبدالرحمان نے خود اپنی کتاب میں لکھی ہے جس کے ریفرنسز آپ سکرین پر دیکھ رہے ہیں۔ جب جنرل رابرٹس قندھار جا رہے تھے تو ایوب خان ان سے پہلے قندھار پہنچ کر اس کا محاصرہ کر چکے تھے۔ تاہم شہر میں موجود برطانوی فوج کی سخت مزاحمت کی وجہ سے وہ اس پر قبضہ نہیں کر پائے۔ اس دوران انہیں جنرل رابرٹس کی آمد کی اطلاع ملی تو انہوں نے محاصرہ ختم کر کے دفاعی پوزیشن لے لی۔
انہوں نے قندھار کے قریب ہی ایک گاؤں پیر پیمال اور کچھ دیگر بستیوں کی آڑ میں اپنا کیمپ لگا لیا تھا۔ افغانوں نے ان آبادیوں میں گھروں کی چھتوں پر بھی مورچے بنا لئے۔ اب انہیں جنرل رابرٹس کا انتظار تھا۔ جنرل رابرٹس اپنی فوج کے ساتھ اکتیس اگست کو قندھار پہنچ گئے۔ اگلے روز یکم ستمبر اٹھارہ سو اسی، ایٹین ایٹی کو جنرل رابرٹس اور ایوب خان کے درمیان ایک فیصلہ کُن جنگ ہوئی۔ جنرل رابرٹس کے پاس پندرہ ہزار فوج اور چھتیس توپیں تھیں۔ افغانوں کا لشکر تعداد میں کچھ زیادہ تھا۔ لڑائی شروع ہوئی تو جلد ہی آبادیوں کے اندر اور کھلے میدان دونوں جگہ گھمسان کا رن پڑا۔
دونوں طرف سے بہادروں نے خوب جوہر دکھائے۔ تاہم اس فیصلہ کُن اور تاریخی جنگ کا فیصلہ صرف تین گھنٹوں میں ہو گیا۔ انگریزوں نے افغان فوج کو شکستِ فاش دے کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ میوند کی لڑائی کا فیصلہ بھی تین گھنٹوں میں ہوا تھا اور قندھار کی جنگ بھی تین گھنٹوں میں ہی ختم ہوئی بس نتیجہ مختلف تھا۔ اس بار انگریز جیتے تھے۔ اس فتح کے بعد انگریزوں نے ایوب خان کے کیمپ پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس وقت کیمپ میں عورتیں دوپہر کا کھانا تیار کر رہی تھیں گوشت سے بھری ہانڈیاں چولہوں پر چڑھائی جانے والی تھیں برتنوں میں گندھا ہوا آٹا بھی تیار تھا۔
لیکن انگریزی فوج کے حملے نے افغانوں کا لنچ پروگرام کینسل کروا دیا۔ کیمپ والے یہ کھانا بھی جوں کا توں چھوڑ کر بھاگ نکلے تاہم افغان بھاگتے ہوئے انگریزوں کیلئے کھانے کے ساتھ ایک سرپرائز بھی چھوڑ گئے تھے جس نے ان کی فتح کا مزہ کچھ کرکرا کر دیا۔ کیمپ میں ایک انگریز افسر لیفٹیننٹ میکلین کی لاش پڑی تھی جو غالباً میوند کی لڑائی کے دوران گرفتار ہوئے تھے۔ انھیں گلا کاٹ کر مارا گیا تھا۔ انگریزوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے صرف قندھار سے پیرپیمال تک چھے سو افغان جنگجوؤں کی لاشیں دفن کیں یعنی افغانوں کا نقصان اس سے بھی کہیں زیادہ تھا۔ جبکہ انگریزوں کے صرف چالیس سپاہی ہلاک ہوئے۔
قندھار کی فتح کے ذریعے انگریزوں نے میوند کی شکست کا بدلہ لے لیا تھا۔ ایوب خان شکست کھا کر ہرات فرار ہو گئے۔ انگریزوں نے ان کا تعاقب نہیں کیا یوں برطانیہ اور افغانستان کی دوسری جنگ بھی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ اس کے بعد انگریزوں نے افغانستان کو تیزی سے خالی کرنا شروع کر دیا۔ اپریل اٹھارہ سو اکاسی، ایٹین ایٹی ون میں انگریزوں نے افغانستان میں اپنے قبضے والا آخری علاقہ یعنی قندھار بھی افغانوں کے حوالے کر دیا۔ حالانکہ کچھ انگریز یہ چاہتے تھے کہ قندھار کو برٹش انڈیا کا حصہ بنا لیا جائے۔ لیکن انگریزوں کے اتحادی امیر عبدالرحمان اسے اپنی ریاست میں شامل کرنا . جیسا کہ ہم نے پہلے آپ کو دکھایا کہ وہ انگریزوں سے قندھار کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔
وہ کہتے تھے کہ قندھار شاہی خان یعنی درانی قبیلے کا گھر ہے۔ ایسے شہر کے بغیر ان کی سلطنت ادھوری ہے اس کی کوئی ویلیو نہیں ہے۔ تو انگریزوں نے امیر عبدالرحمان کو خوش کرنے کیلئے قندھار افغانوں کے حوالے کر دیا۔ یوں افغانستان پر برطانوی قبضہ مکمل طور پر ختم ہو گیا مائی کیوریس فیلوز انگریز افغانوں کو اپنی سوچ کے مطابق، کیڑے مکوڑوں کی طرح کچل تو نہیں پائے تھے لیکن اس جنگ میں انہیں فیس سیونگ بہرحال مل گئی تھی انہوں نے افغانستان میں زیادہ تر لڑائیاں جیت لی تھیں۔ قندھار کی آخری لڑائی میں بھی وہی فاتح رہے تھے۔ چاہتے تھے۔