Hazara Wars-History of Afghanistan part 4

Hazara Wars-History of Afghanistan part 4
امیرعبدالرحمان کے ایک جاسوس نے عبدالقدوس کے بارے میں امیر کو یہ اطلاع لکھ کر بھیجی اس نے لکھا کہ عبدالقدوس کی کمان میں افغان افسر اور کمانڈرز ہزارہ سرداروں کی بیٹیوں سے زبردستی شادیاں کر رہے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس ایک سے زیادہ بیویاں ہیں۔ یہ لوگ اپنا زیادہ وقت شراب پینے اور عیاشی کرنے میں گزارتے ہیں۔ گورنر عبدالقدوس کے اس رویے اور مظالم کو ہزارہ قبائل زیادہ دیر برداشت نہ کر سکے اور انہوں نے ہتھیار اٹھا لئے اپریل اٹھارہ سو بانوے، ایٹین نائنٹی ٹو میں ہزارہ قبائل کی سب سے بڑی بغاوت شروع ہوئی۔
اس بغاوت کی شروعات یوں ہوئی کہ تینتیس، تھرٹی تھری افغان فوجیوں نے ایک ہزارہ کے گھر پر حملہ کیا۔ انہوں نے گھر کی تلاشی لینے کے بہانے اندر داخل ہو کر گھر کے سربراہ کو باندھ لیا۔ اس کے بعد اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی بیوی سے بدسلوکی کی گئی۔ اس واقعے کا بدلہ لینے کیلئے اس جوڑے کے رشتے داروں نے واقعے میں ملوث تمام فوجیوں کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد ان لوگوں نے مقامی فوجی چوکی پر قبضہ کر کے وہاں سے وہ ہتھیار بھی واپس لے لئے جو افغان فوجی ان خاندانوں سے چھین کر لے گئے تھے۔
اس واقعے کے بعد مقامی لوگ تیزی سے مسلح ہونے لگے جلد ہی یہ بغاوت بامیان بھر میں پھیل گئی۔ بامیان کے اردگرد کے صوبوں کے ہزارہ قبائل بھی اس میں شامل ہو گئے باغیوں کی کمان ہزارہ قبیلے “دائے زنگی” کے سردار عظیم بیگ کر رہے تھے۔ باغیوں نے بامیان کے گورنر عبدالقدوس اور ان کی مدد کیلئے آنے والے افغان دستوں کو بری طرح شکستیں دیں۔ ان شکستوں کے بعد عبدالقدوس فرار ہو کر کابل چلے گئے ہزاروں باغیوں نے کابل سے بامیان جانے والی مرکزی شاہراہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ یوں بامیان سے مغربی اور شمالی افغانستان تک زمینی راستہ کٹ گیا۔
امیرعبدالرحمان بھی کابل سے یہ ساری صورتحال دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے بغاوت کچلنے کیلئے سیاسی دشمنی کو یہاں پر مذہبی ٹچ دیا۔ وہ ایسے کہ امیرعبدالرحمان نے علماء سے فتویٰ حاصل کیا کہ تمام شیعہ اور اسماعیلی کافر ہیں۔ لہٰذا ان کے خلاف جہاد فرض ہے۔ اس فتوے کو بنیاد بنا کر انہوں نے تمام پشتونوں کو حتیٰ کہ اپنے سابق مخالف غلزئیوں کو جو ہزارہ جات میں آباد تھے انہیں بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ انہوں نے باغیوں کے خلاف لڑنے والوں کو دولت، عورتیں اور بچے یعنی غلام دینے کا وعدہ بھی کیا۔
ان انعامات اور جہاد کے فتوے کی پورے افغانستان میں تشہیر کی گئی۔ اس کے بعد انعام کے لالچ اور مذہبی جوش میں لاکھوں لوگ ہزارہ قبائل کے خلاف امیر کے پرچم تلے جمع ہو گئے۔ ہسٹورین عسکر موسوی کے مطابق امیر نے جلد ہی تقریباً ڈیڑھ لاکھ کا لشکر تیار کر لیا۔ اس لشکر میں سرکاری فوج کی تعداد پچاس ہزار تھی۔ تیس سے چالیس ہزار پیدل اور دس ہزار گھڑ سوار سپاہی۔ ان کے علاوہ ایک لاکھ سویلین رضاکار بھی اس لشکر میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ ہزارہ جات میں رہنے والے غلزئی قبائل جن کے ہزارہ سے چراگاہوں اور پانی وغیرہ کے پرانے جھگڑے تھے وہ بھی اس لشکر میں شامل تھے۔
غلزئیوں کو یہ لالچ دیا گیا تھا کہ ہزارہ کی زمینیں چھین کر انہیں دے دی جائیں گی۔ امیر عبدالرحمان نے شہروں میں ایمرجنسی نافذ کر دی اور اس لشکر کو ہزارہ قبائل کو کچلنے کیلئے بھیج دیا۔ مبینہ طور پر برطانوی حکومت نے بھی امیر کیلئے فوجی مشیر یا ملٹری ایڈوائزرز بھیجنے کی پیشکش کی۔ تاہم یہ مشیر پھر کسی وجہ سے نہیں بھیجے گئے۔ بہرحال برطانوی مشیروں کے بغیر ہی افغان لشکر نے ہزارہ پر حملہ شروع کر دیا۔ بامیان کے سابق گورنر عبدالقدوس بھی اس کے کمانڈرز میں شامل تھے۔ اس فوج نے جلد ہی ہزارہ جات میں ان تمام علاقوں کی مکمل ناکہ بندی کر دی جو بغاوت کا گڑھ تھے۔
سب سے پہلے ہزارہ کا ایک اہم قبیلہ دائے زنگی اس لشکر کے مقابلے پر آیا لیکن اسے یہاں پر شکست ہوئی۔ قبیلے کے لیڈرز کو ہلاک کیا گیا اور باقی کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کامیابی سے حملہ آوروں کے حوصلے بڑھے اور انہوں نے مزید پیش قدمی کی۔ تاہم ہزارہ قبائل کی طرف سے انہیں شدید ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ہزارہ جنگجو مشکل پہاڑی راستوں میں افغان لشکر کو شدید نقصان پہنچاتے رہے۔ تاہم حملہ آوروں کی تعداد چونکہ بہت زیادہ تھی لہٰذا وہ آگے بڑھنے میں کامیاب ہوتے رہے۔ اگست اٹھارہ سو بانوے، ایٹین نائنٹی ٹو تک ہزارہ کو بڑی حد تک شکست ہو چکی تھی۔ان کے مرکزی لیڈر عظیم بیگ گرفتار ہوئے اور انہیں کابل لے جا کر قتل کر دیا گیا۔
سرکاری فوج نے ہزارہ بغاوت کے اہم مرکز، اروزگان پر بھی قبضہ کر کے اسے تباہ و برباد کر دیا۔ یہاں ہزاروں مردوں، عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا گیا۔ یہ غلام کابل اور قندھار لے جا کر بازاروں میں بیچ دیئے گئے۔ مارے گئے ہزارہ جنگجوؤں کے سر کاٹ کر ان سے کئی مینار بنائے گئے تاکہ دیکھنے والوں کو عبرت ہو اور وہ بغاوت کی جرات نہ کر سکیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سینکڑوں ہزارہ خواتین افغان فوجیوں سے بچنے کیلئے پہاڑوں سے گہری کھائیوں میں کود گئیں اور جان دے دی ہزارہ کی بغاوت کچلنے کے بعد کابل حکومت نے مقامی آبادی پر ظلم کی انتہاء کر دی۔ ہزارہ قبائل کو سبق سکھانے کیلئے ان پر بے تحاشہ مزید ٹیکسز عائد کر دیئے گئے اور ستم کُشی کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔