Hazara Wars-History of Afghanistan part 6

Hazara Wars-History of Afghanistan part 6
وہ لکھتے ہیں کہ ہزارہ لوگ ہمیشہ غیرملکی حملہ آوروں کا ساتھ دیتے تھے کیونکہ وہ ہر افغان کو کافر سمجھتے تھے۔ بامیان کے گورنر عبدالقدوس خان کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ میں نے تو انہیں ہدایت کی تھی کہ وہ وقتاً فوقتاً ہزارہ قبائل کو دعوتوں پر بلاتے رہا کریں۔ اس کے علاوہ وہ ہزارہ سرداروں کو الاؤنسز دیں، انعامات اور خلعتیں یعنی قیمتی لباس تحفے میں دیا کریں اور انہیں قائل کریں کہ وہ پرامن رعایا کی طرح رہیں۔
لیکن وہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہزارہ قبائل خود کو ناقابلِ شکست سمجھتے تھے اور اپنی طاقت پر انہیں بہت مان تھا اٹھارہ سو اکانوے، ایٹین نائنٹی ون میں ہزارہ سرداروں نے انہیں ایک مبینہ خط بھی لکھا تھا جس پر دو یا تین درجن سرداروں کی مہریں تھیں۔ اس خط میں ہزارہ نے، افغان امیر کے مطابق، یہ لکھا کہ اگر تم افغان ایک دنیاوی سردار کی مدد پر فخر کرتے ہو تو ہمیں بھی اپنے پیرومرشد جو ذوالفقار تلوار کے مالک ہیں ان کی مدد پر فخر ہے۔ اس سے ان کی مراد خلیفہ چہارم حضرت علیؓ تھے۔ خط میں آخر میں لکھا تھا کہ تمہیں ہمارا مشورہ ہے کہ اپنی خیریت چاہتے ہو تو ہم سے دور رہو۔
یعنی امیر عبدالرحمان کے مطابق ہزارہ قبائل انہیں دھمکیاں دیتے تھے۔ افغان امیر لکھتے ہیں کہ کچھ ہزارہ سرداروں نے شکست کے بعد میری اطاعت قبول کی اور تقریباً ایک سو کی تعداد میں میرے پاس کابل آئے۔ میں ان سے مہربانی سے پیش آیا اور ان کے دل جیتنے کی کوشش کی۔ میں نے انہیں قیمتی خلعتیں، لباس دیئے، ایک ہزار سے دوہزار روپے تک کیش بھی دیا۔ ہزارہ باغی سردار محمد عظیم بیگ کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ میں نے تو اسے سردار بنایا تھا۔
اسے اپنے شاہی خاندان کے برابر رتبہ دیا تھا۔ اسے ہزارہ جات کا وائسرائے یعنی سربراہ مقرر کیا تھا۔ لیکن اس نے غداری کی بلکہ بغاوت کو ابھارنے میں ہاتھ ہی اسی کا تھا۔ اسی طرح امیر عبدالرحمان یہ بھی نہیں مانتے کہ ہزارہ کمانڈر عظیم بیگ کو قتل کیا گیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ عظیم بیگ کو ان کے خاندان کے ساتھ قیدی بنا کر کابل لایا گیا تھا جہاں جیل میں ان کی موت ہو گئی۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ میں نے ہزارہ قیدیوں سے اچھا سلوک کیا تھا اور انہیں پرامن رہنے کی شرط پر ان کے گھروں کو واپس بھیجا تھا۔ انہوں نے ہزارہ سے اٹھارہ سو ترانوے، ایٹین نائنٹی تھری والے معاہدے کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا۔
ہزارہ بغاوت کچلے جانے کے بعد کی صورتحال پر وہ لکھتے ہیں کہ اب لوگ خاموش، پرامن اور قانون کے دائرے میں رہ رہے ہیں بغاوت کی بے چینی اور خوف ختم ہو گیا ہے کیونکہ کوئی ایسا شخص اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا جو لوگوں کو بغاوت پر اکسا سکے کیونکہ ایسا شخص اب موجود ہی نہیں ہے۔ مطلب سب کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ امیر نے بغاوت کچلے جانے کے دوران بے گھر اور جلاوطن ہونے والے ہزارہ قبائل کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ دوستو یہ اس حکمران کا موقف ہے جس نے مبینہ طور پر ہزارہ قبائل پر یہ سارے مظالم ڈھائے تھے جن کا ہم نے ویڈیو میں پہلے ذکر کیا ہے۔
ظاہر ہے یہ سرکاری موقف ہے۔ کوئی بھی حکومت یہ نہیں کہتی کہ اس کے ہاتھوں ظلم ڈھائے گئے ہیں وہ باغیوں کو ہی قصور وار سمجھتی ہے۔ امیر عبدالرحمان کے موقف میں ہزارہ کی ممکنہ شکایات، ان کے خلاف کفر کے فتوے، فتوحات کے بعد ہونے والے مظالم یا ہزارہ سے کسی معاہدے کا ذکر نہیں ہے۔ نہ ہی امیر نے یہ لکھا ہے کہ برطانیہ نے ہزارہ کے خلاف انہیں فوجی مدد دی تھی۔ اسی طرح جو ہزارہ قبائل فوجی کارروائیوں کی وجہ سے افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے ایران یا اب کے پاکستان میں آ گئے ان کے بارے میں بھی انہوں نے کوئی بات نہیں لکھی۔
حالانکہ ہم آج بھی دیکھ سکتے ہیں کہ افغانستان سے بے گھر ہونے والے ہزارہ قبائل کوئٹہ میں موجود ہیں۔ یعنی ہزارہ جات کی لڑائی کے ذریعے امیر عبدالرحمان نے ہزارہ کی ڈیموگرافی بھی کافی حد تک بدل دی تھی۔ بہرحال ہم نے دونوں طرف کا موقف پوری دیانتداری سے آپ کے سامنے رکھ دیا ہے۔ امیر عبدالرحمان نے صرف ہزارہ جات نہیں بلکہ مغربی اور شمالی افغانستان کی ڈیموگرافی بدلنے کی بھی بھرپور کوشش کی۔
ایک انگریز کرنل سی ای ییٹ کے مشورے سے ایک پراجیکٹ شروع کیا گیا جسے افغانائزیشن کا نام دیا گیا تھا اس پراجیکٹ کے تحت مغربی اور شمالی افغانستان کے سرحدی علاقوں سے پشتون آبادی کو زبردستی نکال کر ان کی جگہ پشتونوں کو آباد کیا گیا۔ افغانائزیشن کے عمل کے تحت تین برس کے اندر ایک سے دو لاکھ پشتونوں کو ہلمند، قندھار، غزنی، ننگر ہار اور کابل سے نکال کر شمالی افغانستان بھیجا گیا۔ یوں صرف چار برس میں شمالی افغانستان میں پشتونوں کی آبادی چار فیصد سے بڑھ کر تیس فیصد ہو گئی۔
دوسری طرف ان علاقوں سے ازبک، ترکمانی اور ایماق قبائل سے بلا معاوضہ ان کی زمینیں چھین لی گئیں۔ ان لوگوں کو بادغیس، غور اور ہرات وغیرہ کی بنجر پہاڑیوں پر بھیج دیا گیا۔ بہت سے لوگوں کو بلخ، پُل خمری اور قطغن یعنی موجودہ بغلان، قندوز اور تخار صوبوں میں میں بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔ اسی طرح انگریزوں کی مدد سے امیر عبدالرحمان نے شمالی صوبے فریاب کی خودمختار ریاست میمنہ پر بھی قبضہ کر لیا۔
یوں دوستو امیر عبدالرحمان افغانستان کی ڈیموگرافی بدل کر اسے ایک نیشن اسٹیٹ بنانے کی کوشش کی۔ تاہم وہ اس میں زیادہ کامیاب نہیں رہے کیونکہ مقامی لوگوں نے پشتون آبادکاروں کو دل سے قبول نہیں کیا۔ آج بھی خاص طور پر شمالی افغانستان میں مقامی آبادی اور پشتونوں میں شدید اختلافات موجود ہیں۔ مقامی لوگ آج بھی افغان سے زیادہ اپنے تاجک یا ازبک وغیرہ ہونے پر زیادہ فخر کرتے ہیں اور پشتونوں سے نفرت کرتے ہیں۔
Click on this
Kurulus Osman Ep 104
امیر عبدالرحمان افغانوں کو ایک قوم تو نہیں بنا سکے لیکن ایک کام انہوں نے کامیابی سے کیا۔ یہ کام تھا افغانستان کی سرحدوں، بارڈرز کا تعین۔ اس کام میں انگریزوں نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ تاہم سرحدی لکیریں کھینچتے وقت افغانوں کو کچھ نقصانات بھی اٹھانا پڑے، کچھ فائدے بھی ملے۔ یہ نقصان اور فائدے کیا تھے؟ روس اور افغانوں کی لڑائی کا کیا انجام ہوا؟ ڈیورنڈ لائن، پاک افغان سرحد کیسے کھینچی گئی؟ انگریزوں کے خلاف قبائلیوں کی بغاوت میں افغانستان کا کیا کردار تھا؟ یہ سب آپ کو دکھائیں گے لیکن ہسٹری آف افغانستان کی اگلی قسط میں