NewsWorld history

Pak-Afghan Border and Durand Line p1

Pak-Afghan Border and Durand Line p1

افغانستان کا آج جو جغرافیہ آپ کو دکھائی دیتا ہے، یہ تقریباً ایک سو تیس سال پہلے طے ہوا تھا۔ اس سے پہلے افغانستان سنٹرل ایشیا اور ہندوستان کے مختلف علاقوں پر قابض بھی رہا جبکہ کچھ ہندوستانی اور ایرانی طاقتیں افغانستان پر بھی قابض رہیں۔ یعنی افغانستان کا جغرافیہ کوئی فِکس نہیں تھا۔ لیکن اٹھارہ سو ستاسی اور ترانوے میں افغان امیر عبدالرحمان نے روس اور برطانیہ کے ساتھ مل کر اپنے جغرافیے کو فِکس کیا۔ افغان امیر کو انیسویں صدی کے آخری حصے میں اپنے بارڈرز فکس کرنے کی شدید ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ پاک افغان سرحد، جسے افغان ڈیورنڈ لائن بھی کہتے ہیں کیا ایک متنازعہ سرحد ہے؟

مائی کیوریس فیلوز انیسویں صدی، نائنٹینتھ سنچری کے افـغانستان کیلئے سب سے بڑا چیلنج تھا بڑی طاقتوں سے اپنی سرحدوں کا دفاع کرنا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سینٹرل ایشیا میں روس اور ہندوستان میں برطانوی فوجیں افغانستان کے دروازے پر کھڑی تھیں۔ انگریز پہلے ہی افغانوں سے دو جنگیں لڑ چکے تھے اور خدشہ تھا کہ وہ آئندہ بھی حملہ کر سکتے ہیں۔ افغانستان کی خارجہ پالیسی بھی اٹھارہ سو اناسی، ایـٹین سیونٹی نائن کے معاہدہ گندمک کے تحت انگریزوں کے قبضے میں جا چکی تھی۔ اسی لئے امیر عبدالرحمان نے لکھا تھا کہ میرا ملک وہ بیچاری بکری بن چکا ہے جس پر شیر اور ریچھ یعنی برطانیہ اور روس دونوں نظریں گاڑ چکے ہیں۔

افغان امیر چاہتے تھے کہ ان خطروں سے نمٹنے کے لیے سرحدوں کا مستقل تعین ہر صورت کر لینا چاہیے۔ یہی سوچ کر امیر عبدالرحمان نے افغانستان کے تمام ہمسائیوں یعنی برطانیہ، روس، چین اور ایران سے رابطے شروع کر دیئے۔ ایران کے ساتھ افغانستان کا نو سو کلومیٹر سے زائد یہ بارڈر ہے جو ساؤتھ اور ویسٹ سے افغانستان سے ملتا ہے۔ جبکہ افغانستان کے شمال مشرقی علاقے میں چین کے ساتھ یہ محض چھیئتر، سیونٹی سکس کلومیٹر کا چھوٹا سا بارڈر ہے۔ افغان امیر عبدالرحمان کے مطابق انھیں ایران اور چینی حکومتوں کے ساتھ سرحدیں طے کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔

ایران اور افغانستان کو ریاست قلات کا جو بلوچستان کا حصہ ملا وہ انگریزوں نے ہی مختلف باؤنڈری کمشنز بنا کر پہلے سے طے کیا ہوا تھا سو اسی پر یہ نئی افغان ایران نے سرحدیں طے ہوئیں۔ لیکن ان دونوں کے بعد امیر عبدالرحمان کے لیے اصل چیلنج تھا روسی قبضے والے سینٹرل ایشیا اور ایسٹ میں برٹش انڈیا سے بارڈرز طے کرنا۔ ان بارڈرز پر بڑے گہرے اختلافات تھے اور جنگ کا خطرہ بھی منڈلاتا رہتا تھا۔ ظاہر ہے برطانیہ اور روس بڑی طاقتیں تھیں اور افغانستان کے وسیع علاقوں پر ان کی نظر بھی تھی۔ وہ اس وقت کے ایران اور چین کی طرح کمزور ممالک تو تھے نہیں۔

یہ چیلنجز ذہن میں رکھ کر امیر عبدالرحمان نے ان دونوں طاقتوں کے ساتھ اپنے بارڈرز طے کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ پہلی باری آئی روس کی اور شروعات ہوئی ایک چھوٹی سی لڑائی سے۔ یہ ترکمانستان کا شہر سرحد آباد ہے جو افغان شہر ہرات سے محض ایک سو بیس کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ تقریباً ڈیـڑھ سو برس پہلے یہ شہر اور اس کے اردگرد کا علاقہ جو پنج دیہہ کہلاتا تھا یہ افغانستان کا حصہ تھا۔ یہاں افغان فوج کی چوکیاں تھیں۔ اس کے مدِمقابل روسی فوج تھی جو ترکمانستان میں پیش قدمی کرتے ہوئے پنج دیہہ سے تین سو کلومیٹر دور مرو شہر پر قابض ہو چکی تھی۔

اب افغانستان روسیوں کی نظروں کے سامنے تھا اور وہ اس پر قبضہ بھی کرنا چاہتے تھے۔ اٹھارہ سو پچاسی، ایٹین ایٹی فائیو میں روسیوں نے موو کی اور پنج دیہہ پر حملہ کر دیا۔ تیس مارچ کو روسی فوج پنج دیہہ میں افغان چوکی پُلِ خشتی پر ٹوٹ پڑی۔ اس لڑائی میں پانچ یا چھے سو افغان فوجی مارے گئے اور باقی پسپا ہو گئے۔ روسی فوج نے پنج دیہہ پر قبضہ کر لیا۔ اب روسی فوج ہرات سے ایک سو بیس کلومیٹر کے فاصلے پر کھڑی تھی اور اسے روکنا بظاہر افغان حکومت کے بس کی بات نہیں تھی۔ لیکن افغانستان ہرات کے دفاع میں تنہا نہیں تھا برطانیہ اس کے ساتھ کھڑا تھا۔

آپ پچھلی اقساط میں جان چکے ہیں کہ برطانیہ، افغانستان کو برٹش انڈیا اور روس کے درمیان بفرزون سمجھتا تھا۔ پنج دیہہ پر روسی قبضے نے افغانوں سے زیادہ انگریزوں کو پریشان کر دیا۔ لندن میں کھلبلی مچ گئی اور برطانوی اخبارات نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ افغانستان کو روسیوں سے بچایا جائے۔ برطانوی میگزین پنچ میں ایک کارٹون شائع کیا گیا جس میں دکھایا گیا تھا کہ ایک ریچھ بھیڑیئے پر حملہ آور ہے جبکہ ایک ببر شیر اور ٹائیگر دور کھڑے یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔ اس کارٹون میں ریچھ اور بھیڑیئے سے مراد روس اور افغانستان تھے۔ جبکہ ببر شیر برطانیہ اور ٹائیگر برٹش انڈیا کی علامت تھے۔

تو دوستو برطانیہ اپنے خدشات کے پیش نظر جلد ہی اس لڑئی میں کود پڑا۔ برطانوی حکومت نے روس کو دھمکی دی کہ اگر اس نے ہرات کی طرف میلی نظر سے دیکھا تو پھر اسے برطانیہ سے جنگ کرنا ہو گی۔ ہندوستان میں تعینات برطانوی فوج کو بھی افغانستان روانگی کیلئے متحرک، موبلائز بھی کر دیا گیا۔ جب روس نے یہ جنگی تیاریاں دیکھیں تو ہرات کی طرف بڑھتے قدم روک دئیے۔ یوں افغانستان کا ایک بڑا علاقہ روسی قبضے میں جانے سے بال بال بچ گیا۔ پنج دیہہ پر روسی قبضے کے وقت برطانیہ کو بھی بہت ضرورت محسوس ہوئی کہ افغانستان اور سینٹرل ایشیا کا بارڈر طے ہونا چاہیے۔ سو اس نے سنجیدہ کوششیں شروع کر دیں۔

Part 2

Related Articles

Back to top button