NewsWorld EmpiresWorld history

Pak-Afghan Border and Durand Line p5

Pak-Afghan Border and Durand Line p5

اسی ڈیورنڈ لائن کے تحت چمن، چاغی، وزیرستان، بلند خیل، وادی کرم آفریدی قبائل یعنی خیبر کا علاقہ، باجوڑ، سوات، بونیر، دیر، چلاس اور چترال۔۔۔ یہ سبھی علاقے ڈیورنڈ لائن کے اس طرف یعنی برٹش انڈیا کے حصے میں آ گئے۔ دوسری طرف افغان کنہڑ صوبے میں اسمار اور ننگر ہار میں لال پور کا علاقہ افغانستان میں شامل ہوا۔ اسی طرح وزیرستان کا ایک چھوٹا سا علاقہ برمل بھی افغانستان میں شامل ہوا جو اب افغان صوبے پکتیکا کا حصہ ہے۔ لیکن ڈیورنڈ لائن کے تحت جو سب سے بڑا علاقہ افغانوں کو ملا وہ تھا موجودہ افغان صوبہ نورستان۔ نورستان جغرافیائی طور پر کافرستان ریجن کا حصہ تھا جس میں چترال بھی شامل تھا۔

Episode 9 Geo download

Download 240p

Download 360p

Download 480p

Download 720p

Download 720p

ڈیورنڈ لائن کے قیام سے پہلے یہ پورا ریجن کافرستان ہی کہلاتا تھا۔ یہاں کی تقریباً ساری آبادی غیرمسلم تھی۔ اس غیرمسلم آبادی کو دو ہزار برس پہلے افغانستان پر حکومت کرنے والے یونانیوں کی اولاد سمجھا جاتا تھا۔ تاہم یہ بات کبھی جنیٹیکلی یا ہسٹروکل ریکارڈ سے ثابت نہیں ہو سکی۔ بہرحال ڈیورنڈ لائن معاہدے کے تحت اس علاقے یعنی موجودہ نورستان کو افغانستان میں شامل کر دیا گیا۔ حالانکہ اس علاقے کے لوگ اس وقت تک آزاد تھے۔ ان کی اکثریت چترال کے مقامی حکمران جو مہتر کہلاتے تھے انہیں اپنا علامتی سربراہ مانتی تھی۔ یعنی وہ افغانستان سے زیادہ چترال یا موجودہ پاکستان میں شامل ہونے کے خواہشمند تھے۔

لیکن انگریزوں نے عوامی جذبات کو نظرانداز کرتے ہوئے کافرستان ریجن کو تقسیم کر دیا۔ چترال انگریزوں کے کنٹرول میں چلا گیا اور نورستان افغانستان کے قبضے میں۔ تو نومبر اٹھارہ سو ترانوے، ایٹین نائنٹی تھری میں یہ معاہدہ طے ہوا جسے ڈیورنڈ ایگریمنٹ یا کابل کنونشن کا نام دیا گیا۔ انگریزوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ چونکہ افغان حکومت نے ایک فرینڈلی سپرٹ کے ساتھ کئی علاقوں پر اپنا کلیم ختم کر کے اسے انگریزوں کو دے دیا ہے اس لئے افغان امیر کی امداد بڑھائی جائے۔ یہ امداد جو پہلے بارہ لاکھ، ون پوائنٹ ٹو ملین روپے تھی وہ بڑھا کر اٹھارہ لاکھ روپے ون پوائنٹ ایٹ ملین کر دی گئی۔

انگریزوں نے اس معاہدے کی خوشی میں افغانوں کو یہ اجازت بھی دے دی کہ وہ برطانیہ سے امداد کے علاوہ مزید بھی جتنا چاہے اسلحہ خرید سکتے ہیں۔ مائی کیوریس فیلوز ڈیورنڈ ایگریمنٹ طے پانے کے بعد تیرہ نومبر اٹھارہ سو ترانوے، ایٹین نائنٹی تھری کو کابل میں ایک عوامی دربار منعقد کیا گیا۔ اس دربار میں اعلیٰ فوجی افسروں، سرکاری عہدیداروں اور قبائلی سرداروں کو بلایا گیا تھا۔ امیر عبدالرحمان اور سر ڈیورنڈ نے دربار میں موجود لوگوں کو معاہدے کی شقوں سے آگاہ کیا اعلانیہ بتایا اور سب نے اس معاہدے کو تسلیم کیا۔

اگلے روز امیر عبدالرحمان اور سر ڈیورنڈ کی تقاریر کی دو ہزار کاپیز بھی افغانستان بھر میں تقسیم کی گئیں تاکہ افغان عوام بھی اس معاہدے کی شقوں سے آگاہ ہو سکیں۔ ڈیورنڈ ایگریمنٹ کی خوشی میں امیر عبدالرحمان نے سر ڈیورنڈ سمیت برطانوی وفد کے تمام اراکین کو میڈلز بھی دیئے۔ ان رسمی کارروائیوں کے بعد ڈیورنڈ لائن کو کاغذ کے مطابق زمین پر قائم کرنے کیلئے انگریزوں اور افـغان افسروں پر مشتمل ایک باؤنڈری کمیشن تشکیل دیا گیا۔ اس کمیشن نے اٹھارہ سو چورانوے، ایٹین نائنٹی فور سے اٹھارہ سو چھیانوے، ایٹین نائنٹی سکس تک ان تمام علاقوں کا دورہ کیا جن سے ڈیورنڈ لائن گزرنا تھا ہر علاقے کے مقامی سرداروں کے مشوروں سے ان علاقوں کے تفصیلی نقشے بنائے گئے۔

پھر سرحد کی انتہائی باریک بینی سے درست مارکنگ کی گئی۔ نقشوں میں کوئی بھی ضروری تبدیلی متفقہ طور پر کی جاتی تھی۔ سرحد کو واضح کرنے کیلئے تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر باؤنڈری پلر یا پتھر کے ستون بھی نصب کئے گئے۔ سرحدوں کے تفصیلی نقشے افغان، برطانوی اور ہندوستانی حکومتوں کو مشترکہ طور پر تقسیم کئے گئے۔ اٹھارہ سو چھیانوے، ایٹین نائنٹی سکس تک ڈیورنڈ لائن کی مارکنگ مکمل ہو گئی اور یہ بارڈر وجود میں آیا جو آج پاک، افغان بارڈر کہلاتا ہے۔ امیر عبدالرحمان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس معاہدے کے نتیجے میں بارڈر کے حوالے سے ساری غلط فہمیاں اور تنازعے ختم ہو گئے۔

سرحدوں کی مارکنگ مکمل ہونے کے بعد افغانستان اور برٹش انڈیا کی حکومتوں کے درمیان امن اور ہم آہنگی کی فضاء پیدا ہو گئی۔ میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ یہ صورتحال ہمیشہ برقرار رہے۔یہ انہوں نے خود لکھا یہاں دوستو یہ ذہن میں رہے کہ ڈیورنڈ لائن معاہدہ ایک لامحدود معاہدہ تھا۔ اس میں کہیں نہیں لکھا تھا کہ یہ معاہدہ فلاں وقت کے بعد ختم ہو جائے گا۔ جیسا کہ امیر عبدالرحمان کی وفات کی صورت میں یا اگر ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت نہ رہی تو یہ نل اینڈ وائڈ ہو گا ایسا کچھ نہیں لکھا تھا۔ ڈیورنڈ لائن کی پوری مارکنگ بھی افغانوں کی مکمل مشاورت سے ہوئی تھی اور ہر حد بندی کے موقع پر ان کے نمائندے موجود تھے۔

ان کے سامنے یہ سارا عمل ہوا تھا۔ امیر عبدالرحمان اور ان کی حکومت کو بھی بارڈر کی حد بندی کی ہر تفصیل سے مکمل طور پر باخبر رکھا گیا۔ یعنی ڈیورنڈ لائن ایک لیگل اور مستقل بارڈر تھا۔ بعد میں انگریزوں اور افغانوں کے درمیان انیس سو انیس، اور انیس سو اکیس میں بھی جو معاہدے ہوئے ان میں بھی ڈیورنڈ لائن کو افغانستان اور برٹش انڈیا کی قانونی سرحد، لیگل بارڈر تسلیم کیا گیا۔ انیس سو انیس میں مہمند ریجن کے علاقے کی دوبارہ حد بندی کی گئی۔ اسی طرح انیس سو اکیس اور بتیس میں بھی ڈیورنڈ لائن میں معمولی ردوبدل کیا گیا۔ تاہم کوئی بہت بڑی تبدیلی اس دوران نہیں ہوئی۔

Part 6

Related Articles

Back to top button