Pak-Afghan Border and Durand Line p6

Pak-Afghan Border and Durand Line p6
ڈیورنڈ لائن سے مقامی پشتون اور بلوچ قبائل کو یہ پریشانی ضرور ہوئی کہ اس لائن نے انہیں دو ملکوں میں تقسیم کر دیا۔ جیسا کہ بلوچستان میں اچکزئی اور کاکڑ قبائل اور وزیرستان میں وزیری قبائل۔ یہ قبائل سرحد کے دونوں جانب رہتے ہیں اور بلا روک ٹوک ایک دوسرے کے علاقوں میں جاتے ہیں۔ سرحدی لکیر ان کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بہرحال دوستو ڈیورنڈ ایگریمنٹ کے بعد امیر عبدالرحمان نے جو فوری قدم اٹھایا وہ تھا کافرستان یعنی موجودہ نورستان پر حملہ۔ معاہدے کے تحت یہ علاقہ ان کی حدود میں شامل ہوا تھا اس لئے وہ اس پر قبضہ کرنا اپنا حق سمجھتے تھے۔ کافرستان کے رہنے والے بت پرست تھے۔
وہ لکڑی سے بت تراشتے تھے۔ اس لئے افغان انہیں کافر کہتے تھے۔ یہ بہت پر امن اور غریب لوگ تھے۔ انیسویں صدی، نائنٹینتھ سنچری میں بھی ان کے پاس ہتھیاروں کے نام پر محض تیر کمان یا نیزے وغیرہ ہی تھے ان کے مقابلے میں افغانوں کے پاس انگریزوں کی فراہم کی ہوئی مشین گنز اور دوسرے ہتھیار تھے۔ امیر عبدالرحمان نے کافرستان کے غریب لوگوں کے خلاف اعلانِ جہاد کر دیا۔ اٹھارہ سو پچانوے، ایٹین نائنٹی فائیو میں دو افغان فوجیں شمال اور مغرب کی جانب سے کافرستان میں داخل ہو گئیں اور جلد ہی پورے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ حملے کے دوران بہت سے مقامی قبائل نے اسلام قبول کر کے اپنی جان بچا لی۔
جوناتھن لی کے مطابق باقی مردوں اور عورتوں کو بلاامتیاز قتل کیا گیا۔ سات سال سے زائد عمر کے لڑکوں کو یہ چوائس دی گئی کہ وہ یا تو اسلام قبول کر لیں یا پھر افغانوں کے غلام بن جائیں۔ کئی مقامی لوگ تو جانیں بچانے کیلئے اپنی شیرخوار بیٹیوں کی شادیاں بھی حملہ آوروں سے کرنے پر تیار ہو گئے۔ تاہم اس حملے کے دوران بہت سے بچوں کو محمد زئیوں، قبائلی سرداروں اور افغان حکام کے گھروں میں غلام یا ملازم بنا دیا گیا۔ کافرستان کے زیادہ تر قبائلی اور مذہبی لیڈرز کو قتل کر دیا گیا۔ ان کے جانور قبضے میں لے لئے گئے۔ ان کے گھر، عبادت گاہیں، قبرستان اور حتیٰ کہ ان کے بنائے ہوئے مجسموں کو بھی توڑا پھوڑا اور جلایا گیا۔
مقامی لوگوں سے چھینے ہوئے لکڑی کے کچھ مجسموں کو یادگار کے طور پر کابل لے جا کر میوزیم میں رکھ دیا گیا۔ کافرستان پر قبضے کے بعد اس علاقے کا نام بدل کر نورستان یعنی نور کی سرزمین رکھا گیا۔ اس کے بعد اس علاقے کو بڑے پیمانے پر اسلامائز کرنے کی مہم سرکاری طور پر شروع کی گئی۔ اس مقصد کیلئے علماء کو اس علاقے میں بھیجا گیا۔ انہوں نے مقامی لوگوں کو مذہبی رنگ میں رنگنا شروع کیا نورستان کے کافروں کو مسلمان بنانے کی خوشی میں اٹھارہ سو چھیانوے، ایٹین نائنٹی سکس میں کابل میں ایک بڑا عوامی دربار منعقد کیا گیا۔
اس دربار میں امیر عبدالرحمان نے اپنے لئے “ضیائے ملت و دین” یعنی قوم اور دین کی روشنی، کا ٹائٹل اختیار کیا۔ لیکن امیر عبدالرحمان کی زندگی کے دن بھی اب تھوڑے ہی رہ گئے تھے۔ انیس سو ایک، نائنٹین او ون وہ سال تھا جب برطانیہ اور افغانستان دونوں کو اپنے حکمرانوں سے محروم ہونا پڑا۔ ایک طرف ملکہ برطانیہ، کوئین وکٹوریہ کا انتقال ہو گیا اور چند ماہ کے بعد افغان امیر عبدالرحمان بھی وفات پا گئے۔ وہ کئی برس سے بیمار تھے۔ اپنی زندگی کے آخری چند برس انہوں نے انتہائی تکلیف میں گزارے۔ گینگرین کے مرض کی وجہ سے ان کا جسم پیروں سے اوپر کی طرف گلنے سڑنے لگا تھا۔
ان سے اتنی بو اٹھنے لگی تھی کہ ان کے درباری ان کے پاس چند منٹ سے زیادہ ٹھہر نہیں سکتے تھے۔ یکم اکتوبر انیس سو ایک، نائنٹین او ون کے روز ان کی موت ہوئی۔ امیر عبدالرحمان نے اپنی زندگی میں باغیوں پر بہت سے مظالم ڈھائے تھے۔ تاہم ان کا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ وہ اپنے ملک کو ایک تسلیم شدہ بارڈرز کے ساتھ نیشن اسٹیٹ بنا گئے تھے۔ ایسی سٹیٹ جس کی سرحدوں کا احترام اب ان کے سابقہ دشمن بھی کرتے تھے۔ ان کے دور میں خواتین کو خودمختار بنانے کی بھی کوشش کی گئی۔ افغانوں میں روایت تھی کہ بیوہ عورت کو اپنے مرحوم شوہر کے قریب ترین رشتے دار سے شادی پر مجبور کیا جاتا تھا۔
امیر عبدالرحمان نے یہ روایت ختم کر کے بیوہ کو خاندان سے باہر شادی کی اجازت دی۔ امیر عبدالرحمان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے حبیب اللہ خان افغانستان کے نئے امیر بنے۔ انہیں اپنے والد سے دو مسئلے ورثے میں ملے تھے۔ ایک ڈیورنڈ لائن اور دوسرا انگریزوں کا افغانستان کے خارجہ معاملات پر کنٹرول۔ افغان قوم پرست نہ ڈیورنڈ لائن کو مانتے تھے نہ اپنی خارجہ پالیسی پر انگریزوں کی بالادستی انہیں قبول تھی۔ قوم پرستی کی اس لہر نے افغانستان کو ایک نئی جنگ کی طرف دھکیلنا شروع کیا۔
نئی صدی میں ایک نئی اینگلو افغان وار برطانیہ کا دروازہ کھٹکھٹکا رہی تھی۔ لیکن اس بار انگریز نہیں بلکہ افغان فورسز تھیں جو ہندوستان پر حملہ کرنے جا رہی تھیں۔ اس حملے کا انجام کیا ہوا؟ یہ حملہ کیسے ہوا؟ افغانوں کو انگریزوں کے تسلط سے مکمل آزادی کب ملی؟ کیسے ملی؟ افغان بادشاہ ظاہر شاہ کے اقتدار کو آج تک یاد کیوں کیا جاتا ہے؟ یہ سب آپ کو دکھائیں گے لیکن ہسٹری آف افغانستان کے تیسرے سیزن میں۔ کیونکہ سیزن ٹو افغانستان کے نیشن سٹیٹ بننے پر یہاں مکمل ہوتا ہے۔